بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

شرکتِ عنان میں ایک شریک کا عمل کرنا/ ایک شریک کی طرف سے مال ظاہر کو سرمایہ بنانا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میرا ایک چلتا ہوا کاروبار ہے جس میں ہم پنجاب کی مختلف مِلوں سے چاول لاکر کراچی میں دوکانداروں کو بیچتے ہیں، اس کاروبار میں چار چیزیں شامل ہیں:  

1۔ بیس  ہزار روپے کا مال تجارت ۔

2۔ بیس ہزار روپے نقد۔

3۔ بیس  ہزار کے جامد اثاثے (دفتروں میں فرنیچر وغیرہ)۔

4۔ چالیس ہزار روپے مارکیٹ میں دوکانداروں کے ذمہ ادھار  ہیں جو کہ دو تین مہینوں کے بعد ملیں گے۔

اب سال کے شروع میں اس کاروبار میں مثلاً دو بندے شریک ہو جائیں اور 25،25 ہزار روپے مضاربت بالنصف کے طور مجھے دے دیں، تو ادھار کے علاوہ یہ ایک لاکھ دس ہزار   روپے بنتے ہیں جو کہ پورا سال کاروبار میں لگتے ہیں، جب کہ ادھار کی رقم چوں کہ دو، تین مہینے بعد ملے گی اس لیے وہ نو  یا دس مہینے کاروبار میں لگے گی۔

سال کے آخر میں طے شدہ شرح کے مطابق کل نفع میں سے آدھا مضارب بالنصف کی حیثیت سے میں لوں گا، اور باقی آدھا نفع مجھ سمیت سب شرکاء  کے درمیان سرمایہ کے تناسب سے تقسیم ہو گا۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ : 1۔مذکوره عقد شرکت  ہے یا مضاربت؟ جب کہ کام صرف میں کر رہا ہوں ، اور سرمایہ دونوں شرکاء کا بھی لگا ہے اور میرا بھی۔ 

2۔ مذکورہ عقد جائز ہے یا نا جائز ؟ اگر جائز ہے تو کیا چالیس ہزار ادھار رقم میں شرکت بالدین ہے؟ اور اگر نا جائز ہے تو اس کا جائز متبادل کیا ہو گا؟

3۔تقسیم منافع کا مذکورہ طریقہ کار شرعاً درست ہے یا نہیں ؟ اگر درست ہے تو ادھار رقم میں کاروبار پورا سال نہیں ہوتا اور بقیہ میں پورا سال ہوتا ہے تو منافع میں برابری کیسے درست ہوئی ؟

4۔ تقسیم منافع کا مذکورہ طریقہ درست نہ ہونے کی صورت میں سابقہ تقسیم شدہ منافع کا کیا حکم ہے ؟

5۔ کام کے لیے ملازمین بھی رکھے ہوئے ہیں جن کو مال مشترک میں سے تنخواہ دی جاتی ہے، اور اچھی کار کردگی پر ان کو مال مشترک سے انعامات بھی دیتے ہیں ، یعنی ان کو یہ کہتے ہیں کہ جو سب سے زیادہ سیل کرے گا اُس کو انعام دیا جائے گا۔ کیا مال مشترک میں سے ان کو انعامات دینا جائز ہے ؟ نیز ان کے لیے مالِ مشترک میں سے موٹر گاڑیاں بھی خریدی ہیں جن کے ذریعے وہ کاروبار کے سلسلہ میں اِدھر اُدھر جاتے ہیں تو کیا مال مشترک سے ان کے لیے گاڑیاں خرید نا جائز ہے ؟یاد رہے کہ  سال کے آخر میں ان گاڑیوں کو بھی منافع میں شمار کیا جاتا ہے۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ  میں ذکر کردہ عقد  شرکتِ عنان  ہے۔

2۔ شرکتِ  عنان کی شرائط میں سے ایک شرط یہ  ہے کہ  جانبین سے سرمایہ   نقدی کی صورت میں ہو اور دوسری شرط یہ  ہے کہ  عقد کے وقت یا کم ازکم خریداری کے وقت  سرمایہ  موجود ہو  ورنہ شرکت فاسد ہوگی، مذکورہ صورت میں آپ کی جانب سے نہ تو پورا سرمایہ نقدی کی صورت میں ہے اور نہ ہی   خریداری کے وقت پورا سرمایہ موجود ہے بل کہ چالیس ہزار مارکیٹ میں ادھار ہے، اس لیے مذکورہ  شرکت فاسد ہے۔

تاہم اس کی جائز اور متبادل صورت یہ  ہے کہ آپ پہلے جامد اثاثے اور مالِ  تجارت کا  کچھ حصہ شرکاء پر فروخت کر دیں،  جب شرکاء قبضہ کرکے جامد اثاثے اور مال تجارت  میں   شریک ہو جائیں تو  پھر برابر یا کم و بیش سرمایہ لگا کر عقد شرکت کر لیں، نیز ادھار کو شرکت میں  شامل کرنا جائز نہیں ہے ۔

3۔ تقسیمِ منافع کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ منافع تمام شرکاء میں فیصد کے تناسب سے مقرر  کر کے تقسیم کیے جائیں، مثلاً کل منافع سے ہر ایک شریک کے دس یا بیس فیصد وغیرہ  ہوں گے، بشرطیکہ کے وہ شرکاء جن کا صرف سرمایہ لگا ہوا ہے منافع اُن کے اصل سرمایہ کے تناسب سے زیادہ  طےنہ ہوں،  اگر سرمایہ کے تناسب سے زیادہ ہوئے تو عقد جائز نہیں ہوگا،تاہم کام کرنے والے شریک(سائل)  کے لیے اپنے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ  منافع مقرر کرنا بھی جائز ہوں گے۔لیکن محنت کے عنوان سے کوئی نفع مقرر کرنا درست نہیں۔

4۔ شرکت فاسدہ میں منافع کا  حکم یہ  ہوتا ہے کہ منافع شرکاء میں سرمایہ کے تناسب  تقسیم کیے جاتے ہیں اور کام   کرنے والا شریک اجرت مثل  کا حق دار ہوتا ہے، لہٰذا سابقہ سالوں میں حاصل شدہ منافع  میں سے آپ اپنے سرمایہ کےتناسب سے  منافع اور دیگر شرکاء کے سرمایہ میں کام کرنے کی وجہ سے اجرت مثل  کے حق دار تھے، اس سے  زائد حاصل کیے ہوئے منافع تمام شرکاء کو واپس کرنا ضروری ہیں۔

5۔تمام شرکاء کی اجازت کے بغیر  ملازمین کو انعام دینا اور گاڑیاں خرید کر دینا  جائز نہیں ہے۔

فتح القديرمیں ہے :

"لا تجوز عندنا بالعرض لا يجوز أن يكون رأس مال أحدهما عرضا والآخر دراهم أو دنانير، ولم يشترط حضور المال وقت العقد وهو صحيح، بل الشرط وجوده وقت الشراء وهو صحيح، بل الشرط وجوده وقت الشراء".

‌(کتاب الشرکة، فصل ولا تنعقد الشركة إلا بالدراهم والدنانير والفلوس النافقة، ج : 6، ص : 157، ط  : دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(ولا تصح مفاوضة وعنان) ذكر فيهما المال وإلا فهما تقبل ووجوه (بغير النقدين، والفلوس النافقة والتبر والنقرة) أي ذهب وفضة لم يضربا (إن جرى) مجرى النقود (التعامل بهما) وإلا فكعروض.....(قوله: بغير النقدين) فلا تصحان بالعرض ولا بالمكيل والموزون والعدد المتقارب قبل الخلط بجنسه، وأما بعده فكذلك في ظاهر الرواية فيكون المخلوط شركة ملك وهو قول الثاني وقال محمد: شركة عقد".

وفيه ايضاً :

"(ولا تصح بمال غائب أو دين مفاوضة كانت أو عنانا) لتعذر المضي على موجب الشركة....(قوله ولا تصح بمال غائب) بل لا بد من كونه حاضرا والمراد حضوره عند عقد الشراء لا عند عقد الشركة، فإنه لو لم يوجد عند عقدها يجوز ".

وفيه ايضاً :

(و) لذا (تصح) عاما وخاصا ومطلقا ومؤقتا و (مع التفاضل في المال دون الربح وعكسه، وببعض المال دون بعض، وبخلاف الجنس كدنانير) من أحدهما (ودراهم من الآخر، و) بخلاف الوصف كبيض وسود وإن تفاوتت قيمتهما والربح على ما شرطا....(قوله: ومع التفاضل في المال دون الربح) أي بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح، وقوله وعكسه: أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح، لكن هذا مقيد بأن يشترط الأكثر للعامل منهما أو لأكثرها عملا، أما لو شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال.

قلت: والظاهر أن هذا محمول على ما إذا كان العمل مشروطا على أحدهما....قلت: وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط، وهذا إذا كان العمل مشروطا كما يفيده قوله إذا شرطا العمل عليهما إلخ".

(کتاب الشرکة، ج : 4، ص :  13تا310، ط : سعید)

وفيه ايضاً :

"(و) لا (القرض) إلا بإذن شريكه إذنا صريحا فيه سراج وفيه: إذا قال له: اعمل برأيك فله كل التجارة إلا القرض والهبة (وكذا كل ما كان إتلافا للمال أو) كان (تمليكا) للمال (بغير عوض) لأن الشركة وضعت للاسترباح وتوابعه، وما ليس كذلك لا ينتظمه عقدها".

(کتاب الشرکة، ج : 4، ص : 318/19)

وفيه ايضاً :

"[تنبيه] لم يذكروا ما لو كانت الدابة بين اثنين دفعها أحدهما للآخر على أن يؤجرها ويعمل عليها على أن ثلثي الأجر للعامل والثلث للآخر وهي كثيرة الوقوع، ولا شك في فسادها؛ لأن المنفعة كالعروض لا تصح فيها الشركة، وحينئذ فالأجر بينهما على قدر ملكهما، وللعامل أجر مثل عمله، ولا يشبه العمل في المشترك حتى نقول لا أجر له؛ لأن العامل فيما يحمل وهو لغيرهما تأمل".

(‌کتاب الشرکة، فصل في الشركة الفاسدة، ج : 4، ص : 326)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"الشركة إذا كانت بالمال لا تجوز عناناً كانت أو مفاوضة إلا إذا كان رأس مالهما من الأثمان التي لا تتعين في عقود المبادلات نحو الدراهم والدنانير فأما ما يتعين في عقود المبادلات نحو العروض والحيوان فلا تصح الشركة بهما سواء كان ذلك رأس مالهما أو رأس مال أحدهما كذا في المحيط، ويشترط حضوره عند العقد أو عند الشراء كذا في خزانة المفتين....وكذلك إذا كان لأحدهما دراهم وللآخر عروض ينبغي أن يبيع صاحب العروض نصف عروضه بنصف دراهم صاحبه ويتقابضان ثم يشتركان إن شاءا مفاوضة وإن شاءا عنانا كذا في المحيط، وفي المنتقى هشام عن محمد رحمه الله تعالى : عبد بين رجلين اشتركا فيه شركة عنان أو مفاوضة جاز كذا في الذخيرة".

(كتاب الشركة، الباب الأول،  الفصل الثالث، ج : 2، ص : 324/25، ط : دار الكتب العلمِية)

وفيها ايضاً :

"لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رؤوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لم يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة ولكل واحد منهما ربح ماله كذا في السراجية".

(كتاب الشركة، الباب الثالث في شركة العنان ، الفصل الثاني، ج : 2، ص : 336)

وفيها ايضاً :

"ولو دفع دابة إلى رجل ليبيع عليها البز والطعام على أن الربح بينهما كانت الشركة فاسدة بمنزلة الشركة بالعروض وإذا فسدت كان الربح لصاحب الطعام والبز ولصاحب الدابة أجر مثلها والبيت والسفينة في هذا كالدابة هكذا في فتاوى قاضيخان".

(كتاب الشركة، الباب الخامس في الشركة الفاسدة ، ج : 2، ص : 345)

بدائع الصنائع میں ہے :

"ولو كان من أحدهما دراهم، ومن الآخر عروض، فالحيلة في جوازه: أن يبيع صاحب العروض نصف عرضه بنصف دراهم صاحبه، ويتقابضا، ويخلطا جميعا حتى تصير الدراهم بينهما، والعروض بينهما، ثم يعقدان عليهما عقد الشركة فيجوز".

وفيه ايضاً :

"(ومنها) : أن يكون رأس مال الشركة عينا حاضرا لا دينا، ولا مالا غائبا، فإن كان لا تجوز عنانا، كانت أو مفاوضة؛ لأن المقصود من الشركة الربح وذلك بواسطة التصرف، ولا يمكن في الدين ولا المال الغائب، فلا يحصل المقصود وإنما يشترط الحضور عند الشراء لا عند العقد".

(کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج : 6، ص : 59/60، ط  : دار الكتب العلمِية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں