بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو الحجة 1446ھ 14 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

ڈالر کی زکاۃ ادا کرنے کا طریقہ/ مالِ مضاربت پر زکاۃ کا حکم


سوال

 میں ہر سال 27 شعبان کو زکوٰۃ ادا کرتا ہوں، میرے پاس نصاب میں نقدی ہے اور کچھ ڈالرز ہیں، اس کے علاوہ میں نے ایک آدمی کو پانچ لاکھ روپے دیے ہیں،  جس سے اس نے برگر شوارما کا کاروبار شروع کیا، جس میں سامان میرا اور مزدوری(عمل) اس بھائی کی ہے،  اس کے پرافٹ میں میرا حصہ 40 فیصد ہے، کاروبار کی شرائط یہاں کے ایک مفتی صاحب کےذریعے سے طے کروائی تھیں، اس کاروبار سے مجھے ابھی تک کوئی آمدنی نہیں ملی۔

برائے مہربانی راہ نمائی فرما دیں کہ کاروبار کے ان پانچ لاکھ روپے اور ڈالرز کی زکوٰۃ میں کیسے ادا کروں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ پاکستانی کرنسی کے ساتھ ڈالر کی مالیت سے زکاۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ ڈالر کی صورت میں جتنے ڈالر موجود ہیں، اس کے چالیسویں حصہ (ڈھائی فیصد) کے مطابق ڈالر یا اس چالیسویں حصہ کی بازاری قیمت (مارکیٹ ویلیو) کے حساب سے پاکستانی روپے باقی موجود پاکستانی روپے کے ساتھ ملا کر ڈھائی فیصد زکاۃ ادا  کی جائے گی۔

باقی پانچ لاکھ روپے جو سائل نے کاروبار کےلیے دیے ہیں، اس کی زکاۃ کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ کام کرنے والے آدمی نے ان پانچ لاکھ میں سے جتنی رقم متعلقہ کاروبار کے ضروری آلات مثلاً چولہے اور برتنوں وغیرہ میں لگادی ہے، تو اس کی زکاۃ ادا کرناسائل یا کام کرنے والے آدمی کے ذمے لازم نہیں ہے۔

تاہم پانچ لاکھ میں سے جتنی رقم کام کرنے والے آدمی کے پاس زکاۃ کا سال پورا ہونے پر نقدی کی شکل میں یا فروخت کیے جانے والے سامان(مالِ تجارت) کی شکل میں موجود ہے، تو دیگر اموالِ زکاۃ کے ساتھ اس نقدی  اور مال تجارت کو بھی نصاب میں شامل کرکے زکاۃ ادا کرناسائل کے ذمے لازم ہوگا۔

الفتاوي الهندية   میں ہے:

"المال الذي تجب فيه ‌الزكاة إن أدى زكاته من خلاف جنسه أدى قدر قيمة الواجب إجماعا، وكذا إذا أدى زكاته من جنسه، وكان مما لا يجري فيه الربا، وأما إذا أدى من جنسه، وكان ربويا فأبو حنيفة وأبو يوسف رحمهما الله تعالى يعتبران القدر لا القيمة."

(ص:١٨٠،ج:١،كتاب الزكاة،مسائل شتي في الزكاة،ط: دار الفكر،بيروت)

حاشية ابن عابدين   میں ہے:

"وكذلك آلات المحترفين إلا ما يبقى أثر عينه كالعصفر لدبغ الجلد ففيه الزكاة، بخلاف ما لا يبقى كصابون يساوي نصبا وإن حال الحول.

(قوله: وكذلك آلات المحترفين) أي سواء كانت مما لا تستهلك عينه في الانتفاع كالقدوم والمبرد أو تستهلك، لكن هذا منه ما لا يبقى أثر عينه، كصابون وجرض الغسال، ومنه ما يبقى كعصفر وزعفران لصباغ ودهن وعفص لدباغ فلا زكاة في الأولين لأن ما يأخذه من الأجرة بمقابلة العمل. وفي الأخير الزكاة إذا حال عليه الحول لأن المأخوذ بمقابلة العين."

(ص:٢٦٥،ج:٢،كتاب الزكاة، ط: ايج ايم سعيد)

المبسوط للسرخسی   میں ہے:

"وأما مال المضاربة فعلى رب المال ‌زكاة ‌رأس ‌المال، وحصته من الربح، وعلى المضارب زكاة حصته من الربح إذا وصلت يده إليه إن كان نصابا أو كان له من المال ما يتم به النصاب عندنا."

(ص:٢٠٤،ج:٢،کتاب الزكاة،باب العشر، ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507102274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں