بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مالِ حرام کو دینی کاموں میں خرچ کرنے کا حکم


سوال

 موجودہ دور میں مالِ  حلال حاصل کرنے والے افراد بڑی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں،  وہ لوگ جن کی تنخواہیں بینک، جھوٹ کھسوٹ کاروباری طریقہ کار یا کسی اور ظلم و زیادتی والے راستے یعنی سود، جوا بازی وغیرہ سے ہو، اسی  طرح  کے اموال کو مساجد و مراکز، مدارس کی تعمیر، جہاد فی سبیل اللہ اور دوسرے نیکی کے کاموں میں لگانا اور دینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس نے کسی کا نا حق مال لیا ہے وہ اس کے لیے    ہرگز حلال نہیں  ،البتہ اس کی کمائی کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ:

1۔  اگر حرام مال بصورتِ غصب  یا چوری کے  ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ   اصل رقم اس کے مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، یعنی  وہ جہاں سے آیا ہے وہیں اسے واپس دے دیا جائے،اور اگر  مالک وفات پاچکا ہو تو اس کے ورثاء کو لوٹا دیا جائے،  اور اگر یہ ممکن نہ ہو، یعنی ورثاء کا بھی علم نہ ہو تو مال کے مالک کی طرف سے   ثواب کی نیت  کرتے ہوئے  اسے مستحقِ زکات  کو صدقہ کرنا ضروری ہے، تاہم اس  نے غصب و چوری  کے مال   سے   کاروبار کرکے  جو منافع حاصل کئے ہو تو اس بارے میں حکم یہ ہے  کہ اصل سرمایہ مالک کو لوٹانے کے بعد منافع اس کے لیے حلال ہوں گے،اسی قول کو امام کرخی رحمہ اللہ نے ترجیح دی  ہے ، اور اسی پر فتوی ہے۔

2۔اور اگر حرام مال سود، جوا ، رشوت کی صورت میں ہو  تو اس میں بھی اصل سرمایہ اس کے مالک کو واپس کرنا ضروری ہے،  اور اگر سودی رقم کا کوئی مالک نہ ہو جیسے بینک کا سود تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر  اس قسم کی سودی رقم آئی ہو تو اس کو بلا  نیتِ ثواب   غرباء میں تقسیم کردیا جائے۔

3۔اور اگر حرام کا مال کسی چیز کے بدلے میں حاصل کیا گیا ہو، جیسے حرام ملازمت وغیرہ کے ذریعے کمائی گئی آمدنی ہو تو اسے مالک کو واپس کرنا درست نہیں ہے، بلکہ  اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیا جائے۔

صورتِ مسئولہ میں  جن لوگوں کے بارے میں یقینی علم ہے کہ ان کی آمدنی حرام ہے تو ان کی کمائی سے مساجد ، مراکز ، مدارس کی تعمیر کرنا یا جہادِ فی سبیل اللہ میں لگانا جائز نہیں ہے،اور  اگر کسی کی کمائی حلال و حرام کا مجموعہ ہو اور تمییز بھی ممکن ہو تو  بھی حرام کی کمائی مذکورہ امور میں صرف کرنا جائز نہیں ہے،اور اگر تمییز  ممکن نہ ہو تو اگر اس کی کمائی میں حلال غالب ہو تو اس صورت میں اس کی کمائی کے پیسوں کو مذکورہ امور میں صرف کرنا  شرعاً جائز ہوگا،   اور اگر اس کی کمائی میں حرام غالب ہو تو اس صورت میں اس کی کمائی کی رقم کو مذکورہ امور میں صرف  کرنا  جائز نہیں ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله ‌اكتسب ‌حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها."

(كتاب البيوع، ‌‌باب المتفرقات من أبوابها، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه، ج:5، ص:235، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"(قوله لو بماله الحلال) قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله."

( کتاب الصلوۃ، فروع افضل المساجد،  ج: 1،  ص: 658، ط:  سعید)

وفيه ايضاً:

"(قوله إلا في حق الوارث إلخ) أي فإنه إذا علم أن كسب مورثه حرام يحل له، لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه، وهذا معنى قوله وقيده في الظهيرية إلخ، وفي منية المفتي: مات رجل ويعلم الوارث أن أباه كان يكسب من حيث لا يحل ولكن لا يعلم الطلب بعينه ليرد عليه حل له الإرث والأفضل أن يتورع ويتصدق بنية خصماء أبيه. اهـ وكذا لا يحل إذا علم عين الغصب مثلا وإن لم يعلم مالكه، لما في البزازية أخذه مورثه رشوة أو ظلما، إن علم ذلك بعينه لا يحل له أخذه، وإلا فله أخذه حكما أما في الديانة فيتصدق به بنية إرضاء الخصماء اهـ. والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب فيمن ‌ورث ‌مالا حراما، ج:5، ص:99، ط: سعيد)

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي میں ہے:

"1 - المال الحرام: هو كل مال حظر الشارع اقتناءه أو الانتفاع به ‌سواء ‌كان ‌لحرمته ‌لذاته، بما فيه من ضرر أو خبث كالميتة والخمر، أم لحرمته لغيره، لوقوع خلل في طريق اكتسابه، لأخذه من مالكه بغير إذنه كالغصب، أو لأخذه منه بأسلوب لا يقره الشرع ولو بالرضا كالربا والرشوة.

2 - أ) حائز المال الحرام لخلل في طريقة اكتسابه لا يملكه مهما طال الزمن، ويجب عليه رده إلى مالكه أو وارثه إن عرفه، فإن يئس من معرفته وجب عليه صرفه في وجوه الخير للتخلص منه وبقصد الصدقة عن صاحبه.

ب) إذا أخذ المال أجرة عن عمل محرم فإن الآخذ يصرفه في وجوه الخير ولا يرده إلى من أخذه منه.

ج) لا يرد المال الحرام إلى من أخذ منه إن كان مصرا على التعامل غير المشروع الذي أدى إلى حرمة المال كالفوائد الربوية بل يصرف في وجوه الخير أيضا.

د) إذا تعذر رد المال الحرام بعينه وجب على حائزه رد مثله أو قيمته إلى صاحبه إن عرفه وإلا صرف المثل أو القيمة في وجوه الخير وبقصد الصدقة عن صاحبه.

3 - المال الحرام لذاته ليس محلا للزكاة، لأنه ليس مالا متقوما في نظر الشرع، ويجب التخلص منه بالطريقة المقررة شرعا بالنسبة لذلك المال.4 - المال الحرام لغيره الذي وقع خلل شرعي في كسبه، لا تجب الزكاة فيه على حائزه، لانتفاء تمام الملك المشترط لوجوب الزكاة، فإذا عاد مالكه وجب عليه أن يزكيه لعام واحد ولو مضى عليه سنين على الرأي المختار."

(‌‌زكاة المال الحرام، ج:10، ص: 7945، ط:دار الفكر)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"والملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(كتاب  الغصب ،ج:3، ص:61،  ط:دارالفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."

( کتاب الکراہیۃ، الباب الثانی عشر فی الھدایا و الضیافات، ج: 5، ص: 343، ط: مکتبہ رشیدیہ)

وفيه أيضاً:

"إذا تصرف في المغصوب وربح فهو على وجوه إما أن يكون يتعين بالتعيين كالعروض أو لا يتعين كالنقدين فإن كان مما يتعين لا يحل له التناول منه قبل ضمان القيمة وبعده يحل إلا فيما زاد على قدر القيمة وهو الربح فإنه لا يطيب له ولا يتصدق به وإن كان مما لا يتعين فقد قال الكرخي: إنه على أربعة أوجه إما إن أشار إليه ونقد منه أو أشار إليه ونقد من غيره أو أطلق إطلاقا ونقد منه أو أشار إلى غيره ونقد منه وفي كل ذلك يطيب له إلا في الوجه الأول وهو ما أشار إليه ونقد منه قال مشايخنا لا يطيب له بكل حال أن يتناول منه قبل أن يضمنه وبعد الضمان لا يطيب الربح بكل حال وهو المختار والجواب في الجامعين والمضاربة يدل على ذلك واختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام." 

(كتاب الغصب، الباب الثامن فى تملك الغاصب والانتفاع به، ج:5، ص:141، ط:دار الفکر) 

وفيه أيضاً:

"لایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی،کذا فی البحرالرائق ."

(باب التعزیر، ج:2، ص:167، ط:رشيدیة)

الاشباہ و النظائر میں ہے:

"إذا كان غالب مال المهدي حلالا، فلا بأس بقبول هديته، وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام، وإن كان غالب ماله الحرام لا يقبلها، ولا يأكل إلا إذا قال: إنه حلال ورثه أو استقرضه."

(الاشباہ و النظائر، الفن الاول، النوع الثانی، القاعدۃ الثانیہ: اذا اجتمع الحلال و الحرام غلب الحرام، ص: 96، ط: دار الکتب العلمیہ)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"الجواب حامداً ومصلیاً 

اگر حلال کمائی میں کچھ حرام کمائی ملائی گئی ہے تو اس سے بنایا ہوا مکان استعمال کرنا درست ہے ، اور ایسی کمائی کو دین کے کاموں میں خرچ کرنا بھی درست ہے، لیکن حرام کمائی کا گناہ مستقل ہے، اور جس قدر مال حرام کمائی سے کمایا ہے اس کا اصل مالک کو واپس کرنا لازم ہے ، وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو دے دیا جائے، اور وہ باقی نہ ہوں تو غرباء پر اس نیت سے صدقہ کردیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اس کے وبال سے بچائے، اور جو خالص حرام کمائی کا روپیہ ہو اس کو اپنے ذاتی یا دینی کاموں میں خرچ کرنا درست نہیں ہے۔ فقط واللہ اَعلم."

(کتاب الحظروالاباحت، مالِ حرام اور اس کے مصرف کا بیان، ج:18، ص:427، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144504100864

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں