بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مال بغیر خریدے بغیر آگے بیچ کر کمیشن لینا


سوال

میں نے مال نہیں خریدا اور بغیر خریدے آگے بیچ دیا، تو کیا اس کا کمیشن لینا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ احادیث میں کسی چیز کو خرید کر قبضہ میں لیے بغیر آگے بیچنے سے منع کیا گیا ہے ،لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کا بغیر خریدے آگے مبیع بیچ کر نفع لینا جائز نہیں ۔ البتہ اگر   آپ کی مراد یہ ہے کہ پہلے چیزوں کے آرڈر  (جسے وعدہ شمار کیا جائے گا )لے لیے جاتے ہوں، پھر  آڈر شدہ چیز خرید کر، نفع رکھ کر خریدار کو پہنچائی جاتی ہوں تو یہ جائز ہے،اسی طرح  کمیشن پر کام (دلالی کرنا)  یعنی  بائع  جو  سامان کا اصل مالک ہے  اس سے معاہدہ کرلیا جائے کہ میں آرڈر  لاؤں گا اورہر آرڈر  پر   طے  شدہ  اجرت لوں گا یا خریدار سے معاہدہ کرلے کہ میں فلاں چیز خرید کر آپ کو لادوں گا اور اپنی محنت کی طے شدہ اجرت لوں گا تو   یہ جائز  ہے اور  اجرت طے کرنے میں  یہ گنجائش بھی  ہے کہ مبیع کی قیمت کے مقابلے میں خاص فی صد کے اعتبار   سے  رقم  بطور کمیشن متعین کرلی جائے ،تو یہ بھی جائز ہے۔ 

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ابتاع طعاما، فلا يبعه حتى يستوفيه، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله." 

ترجمہ:"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص غلہ خریدے،تو اسے آگے نہ بیچےجب تک کے اس کو پورا وصول نہ کرلے،ابن عباس فرماتے ہیں: اور میرا خیال ہے کہ  ہر چیز اسی طرح ہے۔"

(‌‌كتاب البيوع،‌‌باب بطلان بيع المبيع قبل القبض،ج:5،ص:7،رقم:1525،ط:دار الطباعة العامرة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"الثاني: أن يبيع منه متاعا لا يملكه ثم يشتريه من مالكه ويدفعه إليه وهذا باطل لأنه باع ما ليس في ملكه وقت البيع، وهذا معنى قوله: قال (‌لا ‌تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك) أي شيئا ليس في ملكك حال العقد."

(باب المنہی عنہا من البیوع،ج:5،ص:1937،دارالفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وفي الواقعات للناطفي إذا قال لرجل بع هذا المتاع ولك درهم أو قال اشتر لي هذا المتاع ولك درهم ففعل فله أجر مثله لا يجاوز به الدرهم وفي الدلال ‌والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن من كل عشرة دنانير كذا فذلك حرام عليهم. كذا في الذخيرة."

(كتاب الإجارة،الباب السادس عشر،ج:4،ص:450،ط:رشیدیہ)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"الاستصناع بيع الدور والمنازل والبيوت السكنية على الخريطة ضمن أوصاف محددة، فإن بيع هذه الأشياء في الواقع القائم لا يمكن تسويغه إلا على أساس الوعد الملزم بالبيع أو على عقد الاستصناع."

(القسم الثالث‌‌،المبحث السادس،عقد الاستصناع،‌‌المحور الثالث،ج:5،ص:3658،ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں