بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں کی بیماری کی وجہ سے اسقاطِ حمل


سوال

اگر ڈاکٹر دو سال تک سختی سے اولاد میں وقفے کا کہے تو حمل ٹھہر جانے پر اسے ضائع کیا جا سکتا ہے؟میرا حمل نارمل تھا، لیکن عین وقت پر جلدی میں آپریشن کرنا پڑ گیا، اب ڈاکٹر نے سختی سے اگلے دو سال تک وقفے کا کہا ہے،  چار ماہ سے ویسے ہی زخم ٹھیک نہیں ہو رہے اس دوران حمل ہو گیا تو پھر سے آپریشن اور تکلیف دہ زخموں کا بڑھ جانا لازمی ہے، اور اگر دو سال تک انتظار نہ کیا تو ایک دو بچوں کے بعد مزید گنجائش نہ ہوگی صحت کے پیشِ نظر،  اور اگر وقفہ کرلیا تو نارمل ڈلیوری ممکن ہو سکتی ہے جس کے بعد پھر زیادہ بچوں کی پیدائش پر ڈاکٹر کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہوگی، تو ٹانکوں کی صحت تک زیادہ بچوں کی نیت سے اگر وقفہ کر لیا جائے یا حمل ٹھہر جائے تو اسے چار ماہ کے اندر اندر ضائع کردیا جائے تو کیا یہ جائز ہوگا؟ مجھے پریشانی ہے کہ گناہ یا نعمت کی ناشکری کے زمرے میں نہ آئے۔

جواب

اگر  حمل  چار  ماہ  سے  کم کا ہو  اور  دین دار  اور  ماہر ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے  ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل کاتحمل نہیں کرسکتی تو ان  جیسےاعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے    پہلے  (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی،  چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائزنہیں ہے۔

(الموسوعة الفقهیة الکویتیة ۳۰/ ۲۸۵):

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لاتأثم إثم القتل".

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں