بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں کے نیچے بچہ دب کر مرجائے تو کفارہ کا حکم


سوال

اگر بچہ رات کو ماں کے نیچے آجائے اور مر جائے تو کفارہ صرف ماں پر ہوگا یا باپ پر بھی ہوگا اور کفارہ کیا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ   بچہ سوتے میں ماں کے نیچے دب کر مرجائے یہ قتل جاری مجری خطا ہے، اس میں عاقلہ پر دیت اور والدہ پر  کفارہ لازم ہے،  دیت کی مقدارسو اونٹ یا دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار(موجودہ زمانے کے اعتبار سے 30 کلو 618 گرام چاندی)  یا اس کے برابر قیمت ہے،   دیت میں حاصل شدہ مال مقتول کے ورثہ میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہو گا۔

  کفارے میں مسلسل ساٹھ روزے رکھنا   لازم ہو گا،  کفارہ کے روزے میں اگرمرض کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سر نو رکھنے پڑیں گے، ہاں! عورت کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہو گا، یعنی اگرعورت   60 روزے کفارہ میں رکھ رہی ہے تو  60 روزے رکھنے کے دوران ماہ واری کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ ماہ واری سے فراغت کے بعد 60 روزوں کو جاری رکھے گی۔اور ماں بچے کی میراث سے محروم ہوگی اور چوں کہ  بچہ ماں کے نیچے دب کر مرا ہے تو اس کی وجہ سے والد پر کوئی کفارہ وغیرہ  لازم نہیں ہوگا ۔

باقی زیر نظر مسئلہ  میں مقتول بچہ کا اکیلا شرعی وارث صرف اس کا باپ  ہے ؛لہذا باپ اگر دیت معاف کردے تو دیت معاف ہوجائے گی ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) الرابع (ما جرى مجراه) مجرى الخطأ (كنائم انقلب على رجل فقتله) ؛ لأنه معذور كالمخطئ (وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القاتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة

(قوله والرابع ما جرى مجراه إلخ) فحكمه حكم الخطأ في الشرع، لكنه دون الخطأ حقيقة فإن النائم ليس من أهل القصد أصلا، وإنما وجبت الكفارة لترك التحرز عن نومه في موضع يتوهم أن يصير قاتلا، والكفارة في قتل الخطأ إنما تجب لترك التحرز أيضا، وحرمان الميراث لمباشرة القتل وتوهم أن يكون متناعسا لم يكن نائما قصدا منه إلى استعجال الإرث، والذي سقط من سطح فوقع على إنسان فقتله أو كان في يده لبنة أو خشبة فسقطت من يده على إنسان أو كان على دابة فأوطأت إنسانا فقتله مثل النائم لكونه قتلا للمعصوم من غير قصد كفاية (قوله لترك العزيمة) وهي هنا المبالغة في التثبت. قال في الكفاية: وهذا الإثم إثم القتل؛ لأن نفس ترك المبالغة في التثبت ليس بإثم، وإنما يصير به آثما إذا اتصل به القتل فتصير الكفارة لذنب القتل وإن لم يكن فيه إثم قصد القتل اهـ تأمل".

(کتاب الجنایات،ج:6،ص:531،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وأما ما جرى مجرى الخطأ فهو مثل النائم ينقلب على رجل فيقتله فليس هذا بعمد، ولا خطأ كذا في الكافي وكمن سقط من سطح على إنسان فقتله، أو سقط من يده لبنة، أو خشبة، وأصابت إنسانا وقتلته، أو كان على دابة فوطئت دابته إنسانا هكذا في المحيط - وحكمه - حكم الخطأ من سقوط القصاص ووجوب الدية والكفارة وحرمان الميراث كذا في الجوهرة النيرة".

(کتاب الجنایات،ج:6،ص:3،المطبعۃ الکبرٰ ی الامیریۃ)

وفيها أيضاّ:

"وكل دية وجبت بنفس القتل يقضى من ثلاثة أشياء في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - من الإبل والذهب والفضة كذا في شرح الطحاوي.

قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -: من الإبل مائة، ومن العين ألف دينار، ومن الورق عشرة آلاف، وللقاتل الخيار يؤدي أي نوع شاء كذا في محيط السرخسي وقالا: ومن البقر مائتا بقرة، ومن الغنم ألفا شاة، ومن الحلل مائتا حلة كل حلة ثوبان كذا في الهداية".

(کتاب الجنایات،الباب الثامن فی الدیات،ج:6،ص:24،المطبعۃ الکبرٰ ی الامیریۃ)

فتاوی شامی میں ہے :

"عفو الولي عن القاتل أفضل من الصلح والصلح أفضل من القصاص، وكذا عفو المجروح. لا تصح توبة القاتل حتى يسلم نفسه للقود وهبانية

(قوله عفو الولي عن القاتل أفضل) ويبرأ القاتل في الدنيا عن الدية والقود؛ لأنهما حق الوارث بيري".

(کتاب الجنایات،ج:6،ص:548،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں