بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا


سوال

 امی کے کہنے پر بیوی کو چھوڑ سکتے ہیں ؟ اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر والدہ کسی شرعی وجہ کے بغیر طلاق کا مطالبہ کریں تو ان کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے  اور بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں بیوی کو طلاق دینا بھی درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی کی بیوی اس کی والدہ (یعنی اپنی ساس) کے ساتھ  اچھا برتاؤ نہ کرتی ہو، ان کی گستاخی کرتی ہو اور بدگوئی اور بے رخی سے پیش آتی ہو اور سمجھانے کے باوجود باز نہ آتی ہو تو پھر ان کے مطالبہ پر طلاق دینے کی گنجائش ہوگی، لیکن پسندیدہ نہیں ہے، حکمت و بصیرت کے ساتھ دونوں کے درمیان صلح کروانے اور اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،  کیوں کہ حلال کاموں میں جو کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے وہ طلاق دینا ہے، اس لیے حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر دونوں کا ساتھ رہنا مشکل ہو تو شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے لیے علیحدہ کمرہ، بیت الخلا و غسل خانہ اور باورچی خانہ کا انتظام کردے، اور خود اپنی والدہ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک جاری رکھے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 132):

"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك.

(ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق («وإن أمراك أن تخرج من أهلك») أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله".  

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144203200920

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں