بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا دوسرے بچوں کو ترجیح دینا


سوال

: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں:۔ ١. میری والدہ نے میری خالہ کی لڑکی یعنی میری کزن کو پیدائش سے لے کر تین چار سال تک خود پالا پھر میری والدہ کی شادی ہوگئی اور اس کے بعد انھوں نے بھانجی کا تقریباً سارا خرچ اٹھایا پھر ان کی شادی وغیرہ بھی خود کرائی ہے حالانکہ میری خالہ ابھی بھی زندہ ہیں۔ میری والدہ اپنی بھانجی کی بہت زیادہ طرفداری کرتی ہیں اور ان کی ایسی حمایت کرتی ہیں کہ ہر بات پر اُنہیں مجھ پر ترجیح دیتی ہیں حالانکہ میں اُن کی سگی لڑکی ہوں لیکن میری ہر صحیح بات کو غلط ٹھہرا دیتی ہیں اور اپنی بھانجی کی غلط بات کو بھی صحیح ٹھہرا دیتی ہیں۔ اپنی بھانجی کے غموں کو، دکھوں کو اپنا دکھ سمجھتی ہیں اور اپنی بھانجی کے دکھ میں اُن کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں لیکن میرے دکھ، میری پریشانیوں پر دھیان ہی نہیں دیتیں۔ مجھے تنہا چھوڑ دیتی ہیں اور یہ طعنہ دیتی ہیں کہ اپنے سسرال والوں کی طرح جھوٹی ہے مکار ہے۔ اپنی بھانجی کی جھوٹی باتوں کو سچ مانتی ہیں اور میری سچی باتوں کو بھی جھٹلا دیا کرتی ہیں۔ میری والدہ میری جگہ اپنی بھانجی کو سگی اولاد سے بھی زیادہ درجہ دیتی ہیں اور مجھے اپنی اولاد ہی نہیں سمجھتیں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ میری کزن کی اپنی سگی ماں اور سگے بھائی اور بہن سے نہیں بنتی ہے۔ اگر میری والدہ کسی کی غیبت کرتی ہیں اور میں انہیں ٹوک دیتی ہوں یا منع کرتی ہوں ان کی کسی غلط بات پر تو پھر وہ مجھے بد دعائیں دینا، کوسنا شروع کر دیتی ہیں۔ سبھی اولادوں کو ایک نظر سے نہیں دیکھتیں۔ بھائیوں کو مجھ پر زیادہ فوقیت دیتی ہیں۔ میری والدہ کے اس رویے سے میرے ذہن پر بہت زیادہ منفی اثرات پڑ رہے ہیں ایک تو میری خالہ زاد بہن کو مجھ پر ترجیح دیناجیسے کہ وہ سگی اولاد ہو اور مجھ سے سوتیلا پن ظاہر کرتی ہیں دوسرا یہ کہ ہم بہن بھائیوں میں تفریق کرنا ایک نظر سے نہیں دیکھنا قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بتا دیجیے کہ 1۔ کیا میری والدہ کا اس طرح کا رویہ رکھنا درست ہے؟ 2. کیا قرآن و حدیث میں اولاد کے حقوق کا ذکر نہیں ہے؟ اولاد کے حقوق قرآن و حدیث کے حوالے سے ذکر فرما دیجئے 3. اولاد کے درمیان تفریق کرنے پر اگر وعیدیں ہوں تو ان کا بھی ذکر فرما دیجئے تاکہ میری والدہ کی صحیح رہنمائی ہوسکے اور وہ اس گناہ سے بچنے کی کوشش کریں۔

جواب

سگی اولاد کا حق منہ بولی اولاد سے بیشک زیادہ ہے، اور بلا وجہ اپنی اولاد  کی دل شکنی کرنا بھی جائز نہیں۔

اسی طرح اولاد کے درمیان برابری اور عدل کے متعلق بھی شریعت مطہرہ نے خصوصیت کے ساتھ تعلیم دی ہے۔

چنانچہ  ابوداؤد شریف میں حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی حدیث ہے:

"حدثنا ‌سليمان بن حرب ، نا ‌حماد ، عن ‌حاجب بن المفضل بن المهلب ، عن ‌أبيه قال: سمعت ‌النعمان بن بشير يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اعدلوا ‌بين ‌أبنائكم، ‌اعدلوا ‌بين ‌أبنائكم."

(سنن أبي داود، ‌‌كتاب الإجارة‌‌، باب في الرجل يفضل بعض ولده في النحل، 3/ 317، ط: المطبعة الأنصارية ،دهلي)

ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو،اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ ظاہری تقسیم کے اعتبار سے سب بچوں میں برابری کرنی چاہیے،کیونکہ اگر برابری نہ ہو تو بچوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ہاں! فطری طور پر کسی بچے سے دلی طور پر زیادہ محبت ہو تواس پر کوئی پکڑ نہیں،بشرطیکہ ظاہری طور پر برابری رکھے۔ حدیث میں تین بارمکرر برابری کی تاکیدکی ہے جو اس کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے، یعنی اولاد کے درمیان برابری کرنا واجب ہے، اور برابری نہ کرنا ظلم شمار ہوگا۔اور اس کا خیال نہ رکھنا اولاد میں احساسِ کمتری اور باغیانہ سوچ کو جنم دیتا ہے، جس کے بعد میں بہت بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔

اسی طرح لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینا بھی گناہ ہے۔ اولاد اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اورتحفہ ہے،خواہ لڑکا ہو یا لڑکی۔اسلامی تعلیمات کی رو سے بچوں پر رحم وشفقت کے معاملہ میں مذکر ومؤنث میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ جو والدین لڑکے کی بنسبت لڑکی سے امتیازی سلوک کرتے ہیں، وہ جاہلیت کی پرانی برائی میں مبتلا ہیں، اس طرح کی سوچ اور عمل کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ دینی اعتبار سے تو اس پر سخت وعید یں وارد ہوئی ہیں۔ لڑکی کو کمتر سمجھنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے سے ناخوشی کا اظہار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُسے لڑکی دے کر کیا ہے، ایسے آدمی کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تو کیا پوری دنیا بھی مل کراللہ تعالیٰ کے اس اٹل فیصلہ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔یہ درحقیقت زمانۂ جاہلیت کی فرسودہ اورقبیح سوچ ہے، جس کو ختم کرنے کے لیے رحمۃ للعالمین  نے والدین اور تربیت کرنے والوں کو لڑکیوں کے ساتھ اچھے برتاؤاوران کی ضروریات کا خیال رکھنے کی باربار نصیحت کی۔

بہرحال صورت مسئولہ میں سائلہ کو چاہئے کہ اپنی والدہ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑیں،اپنا دل ان کیلئے صاف رکھیں۔ اور  جتنا ممکن ہو سکے ان کا دل جیتنے کی کوشش کریں۔ نیز ان کیلئے دعاگو رہیں اور ان کو نیک اعمال کا ہدیہ اور ان کی طرف سے نفلی صدقات بھی دیتی رہیں، اس کی برکت سے امید ہے ان شاء اللہ ان کا دل آپ کی طرف سے خوش رہے گا۔

بدائع میں ہے:

"فلقوله عز وجل {وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه وبالوالدين إحسانا} [الإسراء: 23] أي: أمر ربك وقضى أن لا تعبدوا إلا إياه.

أمر سبحانه وتعالى ووصى بالوالدين إحسانا، .... وقوله عز وجل {ووصينا الإنسان بوالديه حسنا} [العنكبوت: 8] وقوله تعالى {أن اشكر لي ولوالديك} [لقمان: 14] والشكر للوالدين هو المكافأة لهما أمر سبحانه وتعالى الولد أن يكافئ لهما ويجازي بعض ما كان منهما إليه من التربية والبر والعطف عليه والوقاية من كل شر ومكروه وذلك عند عجزهما عن القيام بأمر أنفسهما والحوائج لهما وإدرار النفقة عليهما حال عجزهما وحاجتهما من باب شكر النعمة فكان واجبا وقوله عز وجل {وصاحبهما في الدنيا معروفا} [لقمان: 15] وهذا في الوالدين الكافرين فالمسلمان أولى .... وقوله عز وجل {فلا تقل لهما أف ولا تنهرهما} [الإسراء: 23] وأنه كناية عن كلام فيه ضرب إيذاء."

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، فصل في نفقة الأقارب، كتاب النفقة، 4/ 30، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں