بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں کا دودھ بطور دوا استعمال کرنے کا حکم


سوال

 ماں اپنے بیٹے کو دودھ دوا کے طور پر پلا سکتی ہے؟ یعنی کہ بیٹے کی عمر دو/ڈھائی  سال سے کافی زیادہ ہے، لیکن بیٹے کا علاج ماں کی دودھ میں تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مدت رضاعت کے بعد کسی عورت کا دودھ پینا کسی بھی شخص کے لیے خواہ بالغ ہویا نابالغ،  جائز نہیں۔

جس چیز کا استعمال حرام ہو اسے بطورِ علاج استعمال کرنے کاحکم یہ ہے کہ :جب کسی  حلال دوائی سے  مرض کا علاج ممکن ہو تو  حرام اشیاء کو بطورِ علاج    بھی استعمال کرنے  کی گنجائش نہیں ہوتی، البتہ  اگر   کسی بھی طب میں اس کے علاوہ کوئی اور علاج نہ ہو ، اور اس میں شفا یقینی ہو اور  ماہر مسلمان باعمل  طبیب  کی رائے اس کے استعمال کی ہو تو اس صورت میں حرام سے بھی علاج کی گنجائش ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر  بیٹے کا علاج کسی بھی طب میں  حلال دوائی سے ممکن ہو تو ماں کے دودھ سے علاج کرنا شرعاً جائز نہیں ہوگا اور اگر   کسی بھی طب میں اس کے علاوہ کوئی اور علاج نہ ہو ،اور اس میں شفا یقینی ہو اور  ماہر مسلمان باعمل  طبیب  کی رائے اس کے استعمال کی ہو  تو اس صورت میں ماں کا دودھ بطور علاج استعمال کرنا جائز ہوگا ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولم يبح الإرضاع بعد موته) لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة ‌حرام ‌على ‌الصحيح شرح الوهبانية. وفي البحر: لا يجوز التداوي بالمحرم في ظاهر المذهب، أصله بول المأكول كما مر 

و في الرد: (قوله وفي البحر) عبارته: وعلى هذا أي الفرع المذكور لا يجوز الانتفاع به للتداوي. قال في الفتح: وأهل الطب يثبتون للبن البنت أي الذي نزل بسبب بنت مرضعة نفعا لوجع العين. واختلف المشايخ فيه، قيل لا يجوز، وقيل يجوز إذا علم أنه يزول به الرمد.

ولا يخفى أن حقيقة العلم متعذرة، فالمراد إذا غلب على الظن وإلا فهو معنى المنع اهـ. ولا يخفى أن التداوي بالمحرم لا يجوز في ظاهر المذهب، أصله بول ما يؤكل لحمه فإنه لا يشرب أصلا. اهـ. (قوله بالمحرم) أي المحرم استعماله طاهرا كان أو نجسا ح (قوله كما مر) أي قبيل فصل البئر حيث قال: فرع اختلف في التداوي بالمحرم. وظاهر المذهب المنع كما في إرضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما خص الخمر للعطشان وعليه الفتوى. اهـ. ح

قلت: لفظ وعليه الفتوى رأيته في نسختين من المنح بعد القول الثاني كما ذكره الشارح كما علمته، وكذا رأيته في الحاوي القدسي، فعلم أن ما في نسخة ط تحريف فافهم."

(باب الرضاع،ج:3،ص:211،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وتكره ألبان الأتان للمريض وغيره وكذلك لحومها وكذلك التداوي بكل حرام كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن عشر  فی التداوی والمعالجات،ج:5،ص:355،دارالفکر)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں  ہے :

"مدتِ رضاعت کے بعد تداوی کے لیے عورت کے  دودھ کا  استعمال اس وقت جائز  ہے  جب اس میں شفا بقولِ طبیبِ حاذق مسلمان ثابت ہو اور کوئی دوسری دوا اس کے قائم مقام نہ ہو۔"

(کتاب النکاح،ج:8،ص:319،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144602101269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں