بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں باپ کے درمیان بچے کے نام رکھنے میں اختلاف ہوگیا


سوال

اللہ پاک  مجھے شادی کے7 سال بعد اولاد نرینہ کی خوش خبری سے بہت جلد ان شاء اللہ نوازنے جارہا ہے،  میں اللہ پاک سے دعا  کرتا تھا کہ اگر اللہ نے مجھے اولاد نرینہ سے نوازا تو میں اس کا نام اپنے مرحوم بابا عبدالصمد کے نام پہ رکھوں گا اور ابوبکر بھی،  پر میری بیوی قرآن پاک  اور نماز پڑھ کر اللہ پاک سے جب دعا مانگتی تھی  کہ اللہ مجھے اولاد نرینہ دے تو اس کا نام عمر رکھیں گے،  جب کہ وہ نماز روزے  اور قرآن کے پابند تھی،  میں نماز نہیں پڑھتا ہوں،  اس کا اصرار ہے کہ بچے کا نام عبد الصمد اور عمر رکھیں،  اللہ نے دوسرا بچہ دیا تو اس کا نام ابوبکر رکھیں گے،  اور میں بالترتیب خلفاء  کرام کے نام رکھنے کا قائل ہوں،  برائے مہربانی اس میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

نومولود بچے کا نام رکھنے کا حق والد کا ہے، اسے اختیار ہے کہ نام خود رکھے یا اپنا اختیار کسی کو دے دے، لیکن بہتر یہ ہے کہ والدین آپس میں باہمی مشورہ سے کوئی اچھا سا نام رکھ لیں اور اس مسئلہ کو اختلاف کی وجہ نہ بنائیں،   خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام پر بالترتیب نام رکھنا لازمی نہیں ہے، اگر آپ کی اہلیہ اصرار کر رہی ہیں کہ  نام عمر رکھا جائے تو اس کی یہ بات مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس معاملہ کو وجہ نزاع نہ بنائیں۔

"تحفة المودود بأحكام المولود" میں ہے:

"الفصل الخامس في أن التسمية حق للأب، لا للأم.

هذا مما لا نزاع فيه بين الناس، وإن الأبوين إذا تنازعا في تسمية الولد، فهي للأب. والأحاديث المتقدمة كلها تدل على هذا. وهذا كما أنه يدعى لأبيه لا لأمه، فيقال: فلان ابن فلان، قال تعالى:{ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله} [الأحزاب /5].

والولد يتبع أمه في الحرية والرق، ويتبع أباه في النسب، والتسمية تعريف للنسب والمنسوب، ويتبع في الدين خير أبويه دينا. فالتعريف كالتعليم والعقيقة، وذلك إلى الأب، لا إلى الأم، وقد قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: "ولد لي الليلة مولود فسميته باسم أبي إبراهيم". وتسمية الرجل ابنه كتسمية غلامه."

(الباب الثامن في ذكر تسميته وأحكامها ووقتها، الفصل الخامس في أن التسمية حق للأب، لا للأم، ص:197، ط:دار عطاءات العلم)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں