جہاں پر بہنوں یا ماں کو میراث میں حصہ دینے کا رواج نہ ہو ایسے جگہ پر بہن کا یا ماں کا حصہ میراث وصولی سے پہلے معاف کرنے کا اعلان کرنا شریعت کے رو سے کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ عورتوں کو میراث سے محروم رکھنے کا رواج شرعًا ظلم ہے اور اس رواج پر عمل کرنے والے اور فروغ دینے والے سخت گناہ کے مرتکب ہیں۔ اللہ نے ہر ایک کا حصہ متعین کیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی امت کو بتایا ہے کہ جو میراث سے کسی وارث کو محروم کرے گا وہ جنت سے محروم ہوگا لہذا اس رواج کو ترک کرنا ضروری ہے۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ اس رواج کے پیشِ نظر عورتوں کا اپنا شرعی حصہ معاف كرنے سے وہ ختم نہیں ہوتا، لہذا عورتوں کو ان کا پورا پورا حق ادا کرنے کو یقینی بنانا ضروری اور لازم ہے،عورتوں كو ان كا شرعی حصہ نہ دينے والوں كو قيامت كے دن سخت عذاب كا سامنا كرنا پڑے گا۔
الأشباه والنظائر میں ہے:
"لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به حتى لو أن أحدا من الغانمين قال قبل القسمة: تركت حقي بطل حقه."
(الفن الثالث، ما یقبل الاسقاط ص نمبر ۲۷۲،دار الکتب العلمیۃ)
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"وعن أنس - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «من قطع ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه."
(کتاب البیوع ، باب الوصایا ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۰۴۰،دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307102396
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن