بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہواری کے ایام میں قرآن کریم کی تلاوت کا حکم


سوال

حیض میں قران پڑھنا کیسا ہے؟ میں قران حفظ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں اور  مجھے ہر 16 دن بعد 8دن کا حیض آتا ہے۔ کیا میں حیض کے دوران حفظ جاری رکھ سکتی ہوں؟ آٹھ دن نہ دھراؤں تو سارا سبق بھول جاتا ہے، میری اساتذہ  کہتی ہیں کہ حیض میں قران نہ پڑھنے کی کوئی دلیل نہیں ہے کیوں کہ جنابت اور حیض دو بلکل مختلف چیزیں ہیں اور اللہ کے رسول نے کبھی کسی صحابیہ کو حیض میں قران پڑھنے سے منع نہیں فرمایا، رہ نمائی فرمائیں

جواب

واضح رہے کہ میں خواتین کے لیے ماہوری کے دنوں میں قرآن کریم نہ تو دیکھ کر پڑھنا جائز ہے اور نہ ہی زبانی پڑھنے یا سنانے کی اجازت ہے، جیساکہ "سننِ ترمذی" میں بروایتِ عبد اللہ ابن عمر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ حائضہ (وہ خاتون جو حیض کے ایام میں ہو) اور جنبی ( وہ مرد جس پر غسل فرض ہو) قرآن مجید میں سے کچھ بھی نہیں پڑھ سکتے۔

دورانِ حیض عورت کے لیے قرآنِ کریم کی تلاوت منع ہے۔البتہ تعلیمی ضرورت کی وجہ سے آیت سے کم ایک ایک کلمہ توڑ کر پڑھنے کی فقہاءِ کرام نے اجازت لکھی ہے، لہٰذا معلمہ طالبات کو پڑھائے  تو ایک ایک کلمہ پڑھ کر سانس توڑ دیا کرے۔یا یہ کہ کسی پاک کپڑے سے قرآنِ مجید کو پکڑے اور اس میں دیکھ کر، زبانی تلفظ کے بغیر دل دل میں قرآنی آیات دہراتی رہے، یا دوران حیض کسی غیر حیض والی طالبہ سے قرآن کریم سنتی رہے، اس طرح کرنے سے قرآن کریم نہیں بھولے گا۔

نیز سائلہ کی معلمہ کا یہ کہنا کہ حیض کی حالت میں قرآن پڑھنے کے منع پر کوئی دلیل نہیں اور حیض و جنابت دونوں مختلف چیزیں درست نہیں ۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز نا داود بن رشيد نا إسماعيل بن عياش عن موسى بن عقبة عن نافع عن بن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا يقرأ الحائض ولا الجنب شيئا من القرآن". 

(سنن الدارقطني، باب في النهي للجنب والحائض عن قراءة القرآن ، ج: ۱، صفحہ: ۱۱۷، ط: دار المعرفة - بيروت)

وفیہ ایضاً: 

"حدثنا علي بن حجر و الحسن بن عرفة قالا حدثنا إسمعيل بن عياش عن موسى بن عقبة عن نافع عن ابن عمر : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال لا تقرأ الحائض ولا الجنب شيئا من القرآن ".

(سنن الترمذي، باب ما جاء في الجنب والحائض : أنهما لا يقرأن القرآن ، ج: ۱، صفحہ: ۲۳۶، رقم الحدیث: ۱۳۱، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

وفیہ ایضاً:

"ما حدثنا ابن أبي داود قال: ثنا عبد الله بن يوسف قال: ثنا إسماعيل بن عياش , عن موسى بن عقبة , عن نافع , عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يقرأ الجنب ولا الحائض القرآن»".

(شرح معاني الآثار، باب ذكر الجنب الحائض والذي ليس على وضوء , وقراءتهم القرآن، ج: ۱، صفحہ: ۸۸،طقم الحدیث:۵۶۸،  ط: عالم الكتب)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إذا حاضت المعلمة فينبغي لها أن تعلم الصبيان كلمة كلمة وتقطع بين الكلمتين، ولايكره لها التهجي بالقرآن. كذا في المحيط".

(الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة،الأحكام التي يشترك فيها الحيض والنفاس، ج: ۱، صفحہ: ۳۸، ط: دارالفکر -بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و قراءة قرآن ) أي و لو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمةً كلمةً، كما قدمناه وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور ... (ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف؛ فلايجوز مس الجلد وموضع البياض منه، وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم، كما في البحر، أي والصحيح المنع كما نذكره، ومثل القرآن سائر الكتب السماوية كما قدمناه عن القهستاني وغيره‘‘.

(کتاب الطہارۃ، باب الحیض، ج: ۱، صفحہ: ۲۹۳، ط: ایچ، ایم، سعید)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102166

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں