بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دس سالہ بچی کی پرورِش کا حق کس کو ہے؟


سوال

زید نے حامد کی بیوہ  جو کہ ایک ڈھائی سالہ بچی کی ماں ہے اس سے شادی  کی اور شادی  کے ایک سال بعد زید کی اس سے ایک اولاد (لڑکا )بھی ہوگیا ، اب حامد کے گھر والے زید کی بیوی سے حامد کی بیٹی طلب کررہے  ہیں  تا کہ وہ اس کی پرورش کرسکیں

واضح رہے کہ  حامد کے پسماندگان میں اس کے بوڑھے ماں باپ ، دو عدد بھائی جن میں سے ایک انٹر پاس اور ایک بالکل ان پڑھ ہے ، چھوٹا بھائی کسی کمپنی میں معمولی  تنخواہ پر ملازم ہے ، جب کہ بڑا بھائی    رکشہ چلا کر گزر بسر کرتا ہے  ، اس کے علاوہ  حامد کی چار بہنوں  میں سے تین عدد بہنیں شادی کے کچھ عرصہ بعد اپنے سسرال والوں سے قطع تعلق کرکے دو شوہروں کے ساتھ اور ایک شوہر سے طلاق لے کر الگ ہوگئی ہے ، اور اپنے بچوں کو شوہر کے رشتہ دار وں سے ملانے سے انکاری ہیں ، اور حامد  کی زندگی میں بھی اس کی بیوی اور بیوی کے رشتہ داروں پر طرح طرح کے بلا جواز الزامات اور دوران ِ حمل حامد سے ملنے پر پابندی لگا چکے ہیں ، الغرض حامد کی زندگی میں بھی مختلف بہانوں   سے اس کی بیوی   کو پریشان کیا جاتارہا اور اب حامد کی بیوی کی دوسری شادی کے بعد بھی اس کی بیوی سے بچی کا مطالبہ کررہے ہیں  اور بچی سے ملاقات کے دوران بھی اس کی ماں کی طرف سے اس کا ذہن خراب کررہے ہیں۔

حالانکہ بچی اپنی ماں اور سوتیلے باپ سے بےحد خوش اور مطمئن ہے ، اور حامد کے گھر جانا نہیں چاہتی ، دوسری طرف زید ایک عالم دین ہے  اور عصری علوم میں یونیورسٹی  سے بی اے کرچکاہے اور اس وقت بیرون ملک میں ایک اچھی پوسٹ پر بر سر روزگا ر ہے ، اور بچی کو ایک اچھے تعلیمی ادارے میں تعلیم دلوارہا ہے، اور دینی تعلیم میں بچی قرآ ن ِ پاک کئی مرتبہ ختم  کر چکی ہے اور اب مختلف سورتیں اور مسائل یاد کررہی ہے،جب کہ حامد کے گھر والوں کو ا س کے زیادہ دیر ٹیوشن پڑھنے پر بھی اعتراض ہے،

مذکورہ بالا حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے براہ کرم درج ذیل سوالات  کا شریعت وقانون کی روشنی میں جواب عنایت فرمادیں

1۔کیا حامد کے والدین  یا اس کے بہن بھائی بچی کی حضانت  کے حق دار ہیں ، جب کہ اس بات کا قوی اندیشہ موجود ہے کہ باقی بیٹیوں  کی طرح اس بچی کی ازدواجی   زندگی  اچھی  نہ گزرے گی ۔

2۔ کیا زید اس بچی کا محرم ہوگا ، جب کہ زید کا حامد  کی بیوہ سے ایک بیٹا بھی  ہے؟

3۔ حق حضانت مین بچی کی رائے  کا اعتبار  کیا جائے گا ؟ اگر ہاں تو کس عمر میں ؟کیونکہ بچی  ماشاءاللہ   دس سال کی ہے اور سمجھدار بھی ؟کیا بچی کی رائے کا اعتبار اس کے بالغ ہونے کے بعد کیاجائے گایا بالغ  ہونے کے بعدبھی بچی  کے 18سال  ہونے تک   اس کی رائے کا اعتبار نہیں  ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سوالات کے جوابات ترتیب وار ملاحظہ ہو:

1۔صورتِ مسئولہ میں  بچی کی عمر نو سال پوری ہونے کے بعد اس  کی پرورش کا حق  شرعا حامد کے والد یعنی بچی کے دادا کو حاصل ہے، اور اگر وہ  شدید بڑھاپے کی وجہ سے  بچی کی پرورش کا اہل  نہ ہو تو حامد کے بھائی یعنی بچی کے چچا      کو پرورش کا حق حاصل ہوگا۔ صرف اس اندیشہ کی  بنا پر دادا  یا چچاسے پرورش کا حق لینا کہ مستقبل میں بچی کی ازدواجی زندگی اچھی نہ گزرےگی شرعا جائز نہیں۔البتہ اگر بچی بالغ  اور سمجھ دار ہوجائے  تو اس کو  اختیا ر ہے کہ جس کے ساتھ رہنا چاہے رہ لے۔

2۔زید نے جب بچی کی والدہ سے نکاح کرلیا  اور صحبت (جسمانی تعلق )بھی ہو گئی تو وہ بچی کا  محرم ہوگیاہے۔

3۔ حقِ حضانت میں  بالغ ہونے سے  پہلے بچی کی رائے کا  شرعا کوئی اعتبار نہیں ، البتہ بالغ  وسمجھ دار ہونے کے بعد  وہ و الدین میں سے جس کے پاس رہنا چاہے رہ سکتی ہے۔بالغ ہونے کے لیے اٹھارہ سال کی عمر  شرط نہیں ، بلکہ نو سال کے بعد  اگر حیض آجائے ، یا  بلوغت کی کوئی علامت  ظاہر تو نہیں ہوئی لیکن عمر پندرہ سال تک پہنچ جائے تو وہ شرعا بالغ شمار ہو گی۔نیز صرف سمجھداری بالغ ہونے  کی علامت نہیں ہے۔

در مختار  میں ہے:

 ـ(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى. وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقا زيلعي.

(وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 566)

(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية، وأفاده بقوله (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونة على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء بحر عن الظهيرية.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 567)

(و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة وأم زوجته) وجداتها مطلقا بمجرد العقد الصحيح (وإن لم توطأ) الزوجة

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 30)

(بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال) والأصل هو الإنزال (والجارية بالاحتلام والحيض والحبل) ولم يذكر الإنزال صريحا لأنه قلما يعلم منها (فإن لم يوجد فيهما) شيء (فحتى يتم لكل منهما خمس عشرة سنة به يفتى) لقصر أعمار أهل زماننا

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 153)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں