بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رجب 1446ھ 18 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

میں نے تمہیں چھوڑ دیا ہے، تم چلی جاؤ، کا حکم


سوال

میں نے اپنے شوہر کو دودھ لانے کو کہا، وہ جانا نہیں چاہ رہے تھے، اس پر کچھ ناچاقی ہو گئی، تو میرے شوہر نے مجھے کہا کہ میں نے تمہیں چھوڑ دیا ہے، تم چلی جاؤ۔ 

اس کے بعد میں وہیں تھی کہ میرے شوہر نے مجھے کہا کہ میں نے تو تمہیں طلاق دے دی ہے، واضح رہے کہ میرے شوہر کا کہنا یہ ہے کہ اس جملہ سے مراد پہلی طلاق (چھوڑ دیا والی طلاق)   کی خبر دینا مقصد تھا۔ 

شوہر یہ بھی کہتا ہے کہ پہلے جملے سے بھی نیت طلاق کی نہیں تھی، اب ہم دونوں دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ :"میں نے تمہیں چھوڑ دیا ہے"،  طلاق کے  صریح الفاظ ہیں، ان الفاظ سے نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے؛لہذاصورتِ مسئولہ میں آپ کے شوہر نے جب آپ کو مذکورہ جملہ کہا تو اس سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہو گئی، پھر جب یہ جملہ کہا: "میں نے تو تمہیں طلاق دے دی ہے" اگر اس جملہ سے پہلی طلاق کی خبر دینا مقصود تھا تو اس سے دوسری طلاق واقع نہیں ہو گی، مجموعی طور پر ایک طلاق رجعی ہی واقع ہوئی ہے، شوہر کو عدت میں رجوع کرنے کا اختیار ہو گا، رجوع کر لینے سے نکاح بحال ہو جائے گا اور آئندہ ساتھ رہنا جائز ہو گا اور مستقبل میں  شوہر کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا، اگر عدت میں رجوع نہ کیا تو عدت ختم ہوتے ہی نکاح ٹوٹ جائے گا اور پھر ساتھ رہنے کے لیے نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرنا ضروری ہو گا۔

رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر یوں کہہ دے کہ میں نے رجوع کیا، ایسا کہہ لینے سے رجوع درست ہو جائے گا اور بہتر ہے کہ رجوع پر دو آدمیوں کو گواہ مقرر کر لیا جائے۔

عدت سے مراد تین ماہواری ہے اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش پر عدت مکمل ہو گی۔

یہ حکم اس صورت میں ہے جب پہلے جملہ میں "تم چلی جاؤ" سے بھی طلاق کی نیت نہیں کی تھی، اگر طلاق کی نیت کی ہو گی تو حکم مختلف ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فإن سرحتك كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال: "رهاكردم" أي سرحتك، يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضاً، و ما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، و قد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت."

(کتاب الطلاق ، المجلد : 3 ، الصفحه : 299 ، طبع : دار الفكر - بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق ... (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين الخ."

(کتاب الطلاق، الباب الثانی فی ایقاع الطلاق، الفصل الخامس فی الکنایات فی الطلاق ، المجلد : 1 ، الصفحه : 375 ، طبع : رشیدیه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144602102688

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں