بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لیکوریا بیماری میں مبتلا خاتون کے لیے طواف کا حکم


سوال

اگر لیکوریا کا مسئلہ ہو اور طواف کے دوران شک ہو کہ وضو ٹوٹ گیا تو کیا کریں،  صرف شک ہونے پر طواف جاری رکھیں یا پہلے کنفرم کریں، وہاں باتھروم تو بہت دور ہوتے ہیں بار بار چیک تو نہیں کر سکتے۔

دوسری بات یہ پوچھنی تھی کہ مکہ مکرمہ  مسجد حرام میں دوسری منزل اور چھت وغیرہ پر حائضہ عورت جا سکتی ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ لیکوریا ( سیلان الرحم )کی بیماری میں جو پانی خارج ہوتا ہے وہ چوں کہ رحم سے خارج ہوتا ہے اس لیے وہ  مذی کی طرح نجاست غلیظہ ہے، اس  کے نکلنےسے وضوء ٹوٹ جاتا ہے اور کپڑے بھی ناپاک ہوجاتے ہیں۔

لہذا  اگر کوئی عورت لیکوریا کی  اس طرح مریضہ ہو ، کہ ايك مرتبہ کسی نمازکا  پورا وقت  اس پراس حالت میں گزر چکا ہوکہ لیکوریا  مسلسل  خارج ہوتا رہے اور اتنی  دیر کے لیے بھی  بند نہ ہو  کہ وضو کر کے فرض نماز  طہارت کی حالت میں  پوری  کر سکے تو ایسی صورت میں   یہ عورت  معذورہ   ہوگی جس کا حکم یہ ہے کہ ہرنمازکا وقت داخل ہونے پر اس کے لیے وضو ضروری ہے، پھر اس وضو سے  اس  پورے وقت میں فرض  ،نفل ادا یا قضا نمازیں پڑھ سکتی ہے، نیز اسی طرح طواف بھی کر سکتی ہے  بشرط یہ کہ  لیکوریا کے علاوہ  کوئی اور  ناقض وضو پیش نہ آئے،اور یہ عورت اس وقت تک معذورہ رہے گی  ،جب تک کسی ایک نماز کا کامل وقت عذر سے خالی نہ گزر جائے۔

لہذا صورت مسئولہ اگر یہ عورت لیکوریا کے مرض کی وجہ سے  مذکور بالا  تفصیل کے مطابق معذورہ کے حکم میں ہو  تو  یہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے پر  وضو کر کےاس وقت  کے اندر طواف کر سکتی ہے،اور اگر مستقل مریضہ نہ ہو ،بلکہ اتفاقا دوران طواف لیکوریا خارج ہو جائے،تو وضو ٹوٹنے کی وجہ سے دوبارہ وضو کر کے طواف کو پورا کرنا لازم ہوگا، لیکن صرف شک کے بنا پر طواف نہ چھوڑیں بل کہ طواف برابر جاری رکھیں جب تک  پانی کے خروج کا یقین نہ ہو۔

2۔حائضہ عورت کے لیےجس طرح     مسجد حرام میں داخل ہونا جائز نہیں، اسی طرح مسجدِ حرام کی چھت پر جانا بھی جائز نہیں لہذا حائضہ مسجد  حرام کی چھت پر نہیں جاسکتی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"رطوبة الفرج، فيكون مفرعا على قولهما بنجاستها۔۔۔ومن وراء باطن الفرج فإنه نجس قطعا ككل خارج من الباطن كالماء الخارج مع الولد أو قبيله."

(کتاب الطہارۃ، باب الانجاس، ج:1، ص:313، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل، (وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في {لدلوك الشمس} (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق."

 (کتاب الطهارة، باب الحيض، ‌‌مطلب في أحكام المعذور،ج:1، ص:305 ط:سعيد)

مراقی الفلاح میں ہے:

"وتتوضأ ‌المستحاضة ومن به عذر كسلس بول واستطلاق بطن لوقت كل فرض ويصلون به ما شاءوا من الفرائض والنوافل ويبطل وضوء المعذورين بخروج الوقت فقط."

(كتاب الطهارة، ‌‌باب الحيض والنفاس والاستحاضة، ص:63، ط: المكتبة العصرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأصل أن كل عبادة تؤدى لا في المسجد من أحكام المناسك فالطهارة ليست من شرطها كالسعي والوقوف بعرفة والمزدلفة ورمي الجمار ونحوها، ‌وكل ‌عبادة ‌في ‌المسجد ‌فالطهارة من شرطها، والطواف يؤدى في المسجد كذا في شرح الطحاوي ."

(كتاب المناسك، الباب الخامس في كيفية أداء الحج، ج:1، ص:224، ط:دار الفكر)

نھر الفائق میں ہے:

"يمنع صلاة وصوما فتقضيه دونها ودخول مسجد والطواف۔۔۔ويمنع أيضا دخول مسجد وكذا في الجنابة."

(كتاب الطحارة، باب الحيض، ج:1، ص:131، ط:دار الكتب العلمية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"فإن الشك والاحتمال في كونه ناقضا لا يوجب الحكم بالنقض إذ اليقين ‌لا ‌يزول ‌بالشك والله أعلم نعم إذا علم من طريق غلبة الظن بإخبار الأطباء أو علامة تغلب ظن المبتلى يجب انتهى."

(كتاب الطهارة، باب نواقض الوضو، ج:1، ص:8، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100764

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں