بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لقطہ کو بغیر تشہیر کے بیچنا


سوال

ہمارے ایک چچا ہیں جو ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور کبھی اپنے گاؤں میں اپنے گھر بھی چلے جاتے ہیں۔ ان کو کچھ دن پہلے ہمارے یہاں محلے میں سونے کا ایک بریسلٹ مل گیا، جو تقریباََ ایک تولہ کے برابر تھا، انہوں نے یہاں کسی کو بتایا نہیں، شاید ان کو لقطہ کے مسائل کا علم نہیں ہوگا، اور اپنے ساتھ گاؤں لے گئے اور وہاں ایک سونار کے اوپر تقریباََ ایک لاکھ یا اس سے کچھ کم زیادہ میں فروخت کردیا۔ اب وہ اس بریسلٹ  کے پیسے جو انہوں  نے لیے ہیں، ان کو خود خرچ کر رہے ہیں  یعنی استعمال میں لارہے ہیں ، حالانکہ حکم تو یہ تھا کہ وہ یہاں پر اس کی تشہیر  کرتے  اور پھر جب مالک نہ ملتا تو ان کی طرف سے صدقہ کردیتے یا اگر زکوٰۃ کے مستحق ہیں تو اپنے استعمال میں لے آتے ، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب آپ ہمیں اس بارے میں فتوی جاری کردیں کہ کیا وہ یہ رقم خود خرچ کرسکتے ہیں (کیونکہ وہ زکوٰۃ لینے کے مستحق بھی ہیں) یا اگر نہیں کرسکتے کیونکہ انہوں نے شرائط پوری نہیں کیں تو پھر کیا کیا جائے کیونکہ وہ تو روزانہ ان پیسوں میں سے خرچ کر رہے ہیں۔ اس کا جتنا جلدی جواب دیا جائے تو بہتر ہوگا تاکہ ہم ان کو یہ فتویٰ  دکھا سکیں۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے چچا نے اگر مالک کو واپس لوٹانے کی نیت سے یہ بریسلٹ اٹھایا تھا تو  ان کو چاہیے تھا کہ وہ اس بریسلٹ کی ممکنہ ذرائع سے تشہیر کرتے  حتی کہ جب غالب گمان ہوجاتا کہ مالک اب مطالبے کے لیے نہیں آۓ گا تو اس کو اپنے پا س حفاظت سے رکھ لیتے اورمالک کے واپس آنے پر اس کو لوٹاتے اور اس بات کی بھی گنجائش تھی کہ اس کو صدقہ کرتے یاپھر خود غریب ہونے کی وجہ سے استعمال کر لیتے، لیکن جب  سائل کے چچا نے اسے اپنے لیے اٹھایا تھااور اس کی ہر ممکن ذرائع سے تشہیر بھی نہیں کی تو چونکہ      لقطہ کو اپنے لیے اٹھانا غصب ہے اور غصب کا حکم یہ ہے کہ اگر غصب شدہ چیز  موجود ہو تو اسے مالک کو تلاش کرکے لوٹانا ضروری ہے ،اور اگر غصب شدہ چیز موجود نہیں ہے بلکہ اس نے فروخت کردی تو اس کی  قیمت  ادا کرنا لازم  ہے،   اس پر توبہ و استغفار کرنا بھی ضروری ہے ،لہذا  سائل کے چچانے جب بریسلٹ اٹھانے کے بعد فروخت کردیا تو وہ لقطہ نہ رہا بلکہ سائل کے چچا کے ذمہ دین(یعنی قرض)  ہوگیا ، چنانچہ سائل کے چچا کو چاہیےکہ  آخری عمر تک  اس بریسلٹ کے مالک کو تلاش کرتے رہیں  اگر  مل جائے تو مالک کو بریسلٹ کا تاوان یعنی قیمت ادا کریں اور مالک  نہ ملنے کی صورت  میں بریسلٹ کا ضمان   اس کے ورثاء کو لوٹایا جائے ورنہ پھر میں  اس کی  مکمل رقم ( جو خرچ کی ہے وہ بھی اور بقیہ بھی )مالک کی طرف سےفقراء میں صدقہ کرنا لازم ہے،خود استعمال نہیں کرسکتے ۔ نیز کبھی مالک یا اس کا کوئی وارث  سائل کے چچا کے  پاس آتا ہے تو  اس کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے  اس بریسلٹ  کا مطالبہ کرےیا پھر معاف کردے ،اوراگر مطالبہ کرےتو   سائل کے چچا کو بریسلٹ کی قیمت اس مالک  کو واپس کرنی ہوگی  ۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"[كتاب اللقطة]

هي مال يوجد في الطريق ولا يعرف له مالك بعينه، كذا في الكافي التقاط اللقطة على نوعين: نوع من ذلك يفترض وهو ما إذا خاف ضياعها، ونوع من ذلك لا يفترض وهو ما إذا لم يخف ضياعها ولكن يباح أخذها أجمع عليه العلماء واختلفوا فيما بينهم أن الترك أفضل أو الرفع؟ ظاهر مذهب أصحابنا - رحمهم الله تعالى - أن الرفع أفضل، كذا في المحيط سواء كانت اللقطة دراهم أو دنانير أو عروضا أو شاة أو حمارا أو بغلا أو فرسا أو إبلا وهذا إذا كان في الصحراء فإن كان في القرية فترك الدابة أفضل

وإذا رفع اللقطة يعرفها فيقول: التقطت لقطة، أو وجدت ضالة، أو عندي شيء فمن سمعتموه يطلب دلوه علي، كذا في فتاوى قاضي خان. ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين."

(الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية، کتاب اللقطة، ج: 2، ص: 289، 290، ط: دارالفکر بیروت)

وفیہ ایضاً:

"إن كان الملتقط محتاجًا فله أن يصرف اللقطة إلى نفسه بعد التعريف، كذا في المحيط، وإن كان الملتقط غنيًّا لايصرفها إلى نفسه بل يتصدّق على أجنبيّ أو أبويه أو ولده أو زوجته إذا كانوا فقراء، كذا في الكافي."

 

(کتاب اللقطة، ج: 2، ص: 291، دار الفکر بیروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي البدائع ‌وإن ‌أخذها ‌لنفسه حرم لأنها كالغصب."

(کتاب اللقطة ، ج: 4، ص: 276، ط: سعید)

وایضاً:

"إن أخذها لنفسه لم يبرأ من ضمانها إلا بردها إلى صاحبها كما في الكافي."

(کتاب اللقطة ، ج: 4، ص: 276، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله)"

(کتاب اللقطة، ج: 4، ص: 283، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101744

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں