بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لقطہ میں ملی ہوئی رقم کو مسجد میں دینا


سوال

مسجد کے بیت الخلاء کے باہر جوتے اتارنے کی جگہ سے کچھ رقم ملی، اس کا اعلان بھی تقریباً 2 ہفتے تک کیا، اس رقم کو کیا مسجد میں عطیہ کر سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہواجب التصدق رقوم (جیسےبینک کی سودی رقم،لقطہ وغیرہ) مصرفِ زکات میں خرچ کرناضروری ہےیعنی کسی مستحقِ زکات فقیرکو مالکانہ طورپر دیناضروری ہے،مسجد کے تعمیری کاموں یا  مسجد کے دیگر اخراجات میں  خرچ کرنا جائز نہیں ہے، صورتِ مسئولہ میں مسجد کے بیت الخلاء کے باہر جوتوں والی جگہ سے جو رقم ملی ہے، اس کی حیثیت لقطہ یعنی زمین پر پڑی ہوئی چیز کی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اس طرح جو رقم/چیز اٹھا لی جائے، اس  کو اس کے مالک  تک پہنچانے کے لیے  حتی الوسع تشہیر کرنا لازم ہے یہاں تک کہ غالب گمان ہوجائے کہ یہ اب اس کے مالک تک نہیں پہنچ سکتی، اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس کو محفوظ  رکھا جائے؛  تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے اور  (حتی الوسع تشہیر کے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے تو) یہ صورت بھی جائز ہے کہ مالک ہی کی طرف سے مذکورہ رقم/  چیز کسی  فقیر کو صدقہ کردی جائے، یا اٹھانے والا اگر خود زکات کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ رقم کی تشہیر کے بعد اگر اس کے مالک کے آنے سے مایوسی ہوگئی  ہے، تو اس رقم کے بارے میں حکم یہ ہے کہ رقم کو اٹھانے والا شخص اس رقم کے مالک کی طرف سے  یہ  رقم کسی  فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر اٹھانے والا خود زکات کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے، البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجاتاہے تواسے اپنی رقم کے مطالبے کا  اختیار حاصل ہوگا۔ یہ رقم مسجد میں عطیہ کرنا جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم إذا عرفها ولم يحضر صاحبها مدة التعريف فهو بالخيار إن شاء أمسكها إلى أن يحضر صاحبها، وإن شاء تصدق بها على الفقراء ولو أراد أن ينتفع بها فإن كان غنيا لا يجوز أن ينتفع بها عندنا."

(كتاب اللقطة، فصل في بيان ما يصنع باللقطة، ج:٦، ص:٢٠٢، ط:دارالكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر...(قوله: أي مصرف الزكاة والعشر) يشير إلى وجه مناسبته هنا، والمراد بالعشر ما ينسب إليه كما مر فيشمل العشر ونصفه المأخوذين من أرض المسلم وربعه المأخوذ منه إذا مر على العاشر أفاده ح. وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني...

(يصرف) المزكى (إلى كلهم أو إلى بعضهم) ولو واحد من أي صنف كان؛ لأن أل الجنسية تبطل الجمعية، وشرط الشافعي ثلاثة من كل صنف. ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)...(قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي.

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:٢، ص:٣٣٩-٣٤٤، ط:سعيد)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال:پایا ہوا روپیہ مسجد میں لگ سکتا ہے یا نہیں؟

جواب:وہ لقطہ ہے، مالک کو تلاش کر کے اس کو دیا جائے، اس کا پتہ نہ چلے تو مایوس ہونے کے بعد غریب کو صدقہ کردیا جائے، مسجد میں نہ دیا جائے۔"

(کتاب الوقف، باب أحکام المساجد، عنوان:لقطہ کا روپیہ مسجد میں لگانا، ج:15، ص:129، ط:ادارۃ الفاروق)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"سوال:اگر مسجد میں کسی شخص نا معلوم کا کپڑا اور کوئی چیز پڑی پاوے تو اس چیز کو مسجد میں صرف کرسکتے ہیں یا نہیں؟

جواب:وہ لقطہ ہےاور اس کا اعلان کرنا چاہیے، مسجد کے صرف میں نہ لایا جاوے۔"

(کتاب اللقطہ، عنوان:پڑی ہوئی چیز لقطہ ہےمسجد میں لگانا درست نہیں ہے، ج:12، ص:267، ط:دارالاشاعت)

وفیہ ایضاً:

"جب کہ باوجود تلاش اور تحقیق کے مالک کا پتہ نہ چلے، تو حکم ہے کہ اٹھانے والا اس چیز کو کسی محتاج کو دے دیوے، یا اگر خود محتاج ہے تو خود اپنے کام میں لاوے، پھر اگر مالک مل جاوے اور وہ صدقہ کی اجازت دے تو خیر ورنہ اس شخص کو اس کی ضمان اپنے پاس سے دینی ہوگی اور مسجد میں صرف نہ کرے۔''

(کتاب اللقطہ، عنوان:لقطہ کا مال مسجد میں صرف نہ کرے، ج:12، ص:269، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں