بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لقطہ کا مال مسجد و مدرسہ میں استعمال کرنا


سوال

لقطہ کا مال مسجد  ومدرسہ میں استعمال کرناکیسا ہے ؟زید کا مؤقف یہ ہے کہ لقطہ کا مال واجب التصدق تو ہے لیکن اس میں تملیک شرط نہیں اس لیے مسجد ومدرسہ میں یہ مال استعمال کرسکتےہیں۔جب کہ بکرکا مؤقف ہے کہ مسجد و مدرسہ میں لقطہ کا مال استعمال کرنا جائز نہیں، کیوں کہ اس میں تملیک شرط ہے۔

فقہائے احناف کے  نزدیک ان دونوں میں سے کس کا مؤقف درست ہے ؟

جواب

راستے میں پڑی ہوئی رقم اور چیز ، ’’لقطہ ‘‘  ہے، اس کا حکم  فقہاء نےیہ لکھاہے کہ جس شخص کو ایسی رقم / چیز ملے تو اس رقم / چیز کی حتی الوسع تشہیر کرے، اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتہ نہ لگے تو اس کو محفوظ  رکھے،  تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں اس کو واپس دیا جاسکے۔ اور اگر   (حتی الوسع تشہیر کے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود  مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے تو) یہ صورت بھی جائز ہے کہ مالک ہی کی طرف سے مذکورہ رقم / چیز کسی  فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر خود زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجاتاہے تواسے اپنی رقم / چیز کے مطالبے کا  اختیار حاصل ہوگا۔ 

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ مالک کے نہ ملنے کی صورت میں لقطے کا حکم یہی ہے کہ اسے فقراء پر صدقہ کردیا جائے ، فقہائے احناف نے اپنی کتب میں، نیز دیگر اہل افتاء نے  اپنے فتاویٰ میں اس کی صراحت کی ہے، لہذا بکر کا مؤقف  درست ہےکہ لقطہ کا مال مسجد میں استعمال کرنا جائز نہیں۔

البتہ مدرسے میں غریب،مستحق طلبہ ہوں تو انہیں لقطے کا مال دیاجاسکتا ہے۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :

"الجواب:وہ لقطہ ہے، اور اس کا اعلان کرنا چاہیے، مسجد کے صرف میں نہ لایا جائے۔"

(فتاوی دارالعلوم دیوبند، کتاب اللقطۃ، ج:۱۲،ص:۲۶۷،ط:دارالاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"الجواب حامدا و مصلیا:

وہ لقطہ ہے، مالک کوتلاش کرکے اس کو دیاجائے، اس کا پتہ نہ چلے تو مایوس ہونے کے بعد غریب کو صدقہ کردیا جائے، مسجد میں نہ دیا جائے۔"

(ج:۱۵،ص:۱۳۰، ط:فاروقیہ)

البحرالرائق میں ہے :

"قوله ( وينتفع بها لو فقيرا وإلا تصدق على أجنبي ولأبويه وزوجته وولده لو فقيرا ) أي ينتفع الملتقط باللقطة بأن يتملكها بشرط كونه فقيرا نظرا من الجانبين كما جاز الدفع إلى فقير آخر وأما الغني فلا يجوز له الانتفاع بها فإن كان غير الملتقط فظاهر للحديث فإن لم يجيء صاحبها فليتصدق بها والصدقة إنما تكون على الفقير كالصدقة المفروضة وإن كان الملتقط فكذلك."

(البحرالرائق ، کتاب اللقطۃ، ج:۵،ص:۱۷۰،ط:دارالمعرفۃ )

بدائع الصنائع میں ہے :

"ثم إذا عرفها ولم يحضر صاحبها مدة التعريف فهو بالخيار إن شاء أمسكها إلى أن يحضر صاحبها ، وإن شاء تصدق بها على الفقراء ولو أراد أن ينتفع بها فإن كان غنيا لا يجوز أن ينتفع بها عندنا."

(بدائع الصنائع، کتاب اللقطۃ، ج:۶،ص:۲۰۲،ط:سعید )

فتاوی شامی میں ہے :

"( فينتفع ) الرافع ( بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال ) تاترخانية."

(فتاوی شامی ، کتاب اللقطۃ، ج:۴،ص:۲۷۹،ط:سعید )

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح ، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء ، كذا في خزانة المفتين ، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه ، كذا في شرح مجمع البحرين."

(فتاوی ہندیہ، کتاب اللقطۃ، ج:۲،ص:۲۸۹،ط:رشیدیہ کوئٹہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100844

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں