بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لقمہ لینے اور دینے دونوں میں احتیاط کرنا چاہیے


سوال

میں ایک امام صاحب کے پیچھے تراویح پڑھتا ہوں، وہ قرآن سناتے ہیں لیکن روزانہ بہت غلطیاں کرتے ہیں ،سامع بھی مقرر ہے وہ بھی بتاتا ہے لیکن کچھ جگہ رہ بھی جاتی ہیں، تقریباً 5 یا 4 اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جگہ چھوڑ دی ہے لیکن مجھے متشابہ دینے سے منع کیا گیا ہے، تو کیا اب یہ جو غلطیاں ہوتی ہے ان کو سن کر بھی نہ بولنے کا گناہ مجھے بھی ہوگا یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ لقمہ دینے میں احتیاط کا پہلو یہ ہے کہ لقمہ دینے میں جلدی نہ کی جائے،اور  مقرر کردہ سامع ہی لقمہ دے،اس طرح کہ  امام التباس کا شکار نہ ہو،لیکن اگر امام سے غلطی ہو اور سامع کے لقمہ نہ دے سکنے کی وجہ سے وہ تلاوت جاری رکھے اور غلطی کی وجہ سے معنی میں ایسا فساد نہ آئے جس کی وجہ سے نماز فاسد ہوتی ہو، تواگلی رکعت یا بعد کی کسی رکعت میں وہ آیت تصحیح کرکے دُہرا لے ،تراویح میں ضرورۃً اس کی گنجائش ہے۔ البتہ اگر غلطی کی وجہ سے معنیٰ میں ایسا فساد لازم آئے جس سے نماز فاسد ہوجائے تو سامع ورنہ مقتدیوں میں سے کسی حافظ کو چاہیے کہ وہ لقمہ دے دے،  اور امام اس کو قبول کریں ،اگر نہ کریں تو لقمہ دینے والےبری الذمہ ہو جائے گااورمزید یہ کہ ایسی غلطی کی تصحیح نماز میں نہیں کی گئی تو نماز فاسد ہوجائے گی۔اس لیے لقمہ دینے اور لینے دونوں میں احتیاط کا پہلو ملحوظ رہنا چاہیے۔

شرح ابی داؤد للعینیمیں ہے:

"قوله: " فما يَمنعك" أي: من الفَتْح؛ وهذا فيه تصريح على جواز الفتح على إمامه، وتقييد بأن الفتح إنما يجوز إذا كان ممنْ هو في صلاته."

(کتاب الصلوۃ ،باب النھي عن التلقین، ج: 4، ص:131، ط:مکتبة الرشد ریاض)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"والفتح على الإمام لا يفسد الصلاة) يعني المقتدي، فأما غير المقتدي إذا فتح على المصلي تفسد به صلاة المصلي، وكذلك المصلي إذا فتح على غير المصلي؛ لأنه تعليم وتعلم، والقارئ إذا استفتح غيره فكأنه يقول: بعد ما قرأت ماذا فذكرني، والذي يفتح عليه كأنه يقول بعد ما قرأت كذا فخذ مني، ولو صرح بهذا لم يشكل فساد صلاة المصلي، فأما المقتدي إذا فتح على إمامه هكذا في القياس، ولكنه استحسن لما روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم قرأ سورة المؤمنين فترك حرفًا، فلمافرغ قال: ألم يكن فيكم أبي؟ فقالوا: نعم يا رسول الله، فقال: هلا فتحت علي! فقال ظننت أنها نسخت، فقال: لو نسخت لأنبأتكم بها» وعن علي - رضي الله تعالى عنه - قال: إذا استطعمك الإمام فأطعمه وابن عمر قرأ الفاتحة في صلاة المغرب فلم يتذكر سورة، فقال نافع: {إذا زلزلت الأرض زلزالها} [الزلزلة: 1] فقرأها، ولأن المقتدي يقصد إصلاح صلاته، فإن قرأ الإمام فلتحقق حاجته قلنا لاتفسد صلاته."

(کتاب الصلوۃ ،باب الحدث في الصلوۃ، 1 / 193 ط:دارالمعرفة بیروت)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"(وإن فتح على إمامه لم يكن كلاما استحسانا) ش: أي من حيث الاستحسان؛ لأن القياس يأباه، وإطلاق هذا دليل على أنه إذا قرأ الإمام مقدار ما تجوز به الصلاة أو لم يقرأ لا تفسد صلاتهما بالفتح، والأخذ ويؤيد هذا ما ذكره قاضي خان في فتاواه وقال: وإن قرأ الإمام مقدار ما تجوز إلا أنه توقف ولم ينتقل إلى آية أخرى حتى فتح المقتدي اختلفوا فيه والصحيح أنه تفسد صلاة الفاتح، وإن أخذ الإمام لا تفسد صلاتهم وعن قريب يجيء مزيد الكلام فيه."

(حكم الفتح على الإمام، ج:2، ص:415، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100863

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں