اس سال جانوروں میں ایک بیماری آئی ہے، اس کی وجہ سے جانور کی جلد پر چیچک کےدانوں کی مانند دانے ہوجاتے ہیں۔
عیدِقرباں نزدیک ہے،اور قربانی کے لیے جانور کا بے عیب ہونا ضروری ہے،لہذاآپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا یہ بیماری جانور کو عیب دار بناتی ہے یا نہیں؟اور کیا ایسے جانور کی قربانی ہوسکتی ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں سوال میں ذکر کردہ جانوروں میں وائرل بیماری "Lumpy skin disease" لمپی اسکن کہلاتی ہے، اگر کسی جانور میں یہ بیماری ہوتو اسے قربانی کے لیے نہ خریدا جائے،اور اگر کسی نے صحیح سالم جانور خرید لیاہے، اور بعد میں یہ بیماری ظاہر ہوئی ہے، تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس بیماری کی وجہ سے صرف کھال کا ظاہری حصہ متاثر ہوا ہے، اس کا اثر گوشت تک نہیں پہنچا، تو اس جانور کی قربانی جائز ہے،لیکن اگر یہ بیماری جسم کے اندر پھیل گئی، اور اس کااثر گوشت تک پہنچ گیا ہےتو اس کی قربانی جائز نہیں،ایسی صورت میں صاحبِ استطاعت شخص پراس جانور کی جگہ دوسرا جانور لے کر قربانی کرنا ضروری ہوگا،اور اگر استطاعت نہ ہو تو پھر اسی جانور کو ذبح کرنا کافی ہوجائے گا۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"(وأما صفته) : فهو أن يكون سليما من العيوب الفاحشة، كذا في البدائع."
وفيه ايضاً:
"ومن المشايخ من يذكر لهذا الفصل أصلا ويقول: كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع، ثم كل عيب يمنع الأضحية ففي حق الموسر يستوي أن يشتريها كذلك أو يشتريها وهي سليمة فصارت معيبة بذلك العيب لا تجوز على كل حال، وفي حق المعسر تجوز على كل حال، كذا في المحيط."
(الفتاوى الهندية، كتاب الأضحية، الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب،ج:5، ص:297/299، رشيدية)
فتاوی شامی ميں ہے:
"(والجرباء السمينة) فلو مهزولة لم يجز، لأن الجرب في اللحم نقص."
(الدر المختار مع ردالمحتار،كتاب الأضحية، 323/6، سعيد)
فتح القدیر میں ہے:
"ويجوز ان يضحي بالجرباء إن كانت سمينة جاز لأن الجرب في الجلد ولا نقصان في اللحم، وإن كانت مهزولة لا يجوز لأن الجرب في اللحم نقص ."
(كتاب الأضحية، ج:9، ص:515، ط:دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولو) (اشتراها سليمة ثم تعيبت بعيب مانع) كما مر (فعليه إقامة غيرها مقامها إن) كان (غنيا، وإن) كان (فقيرا أجزأه ذلك) وكذا لو كانت معيبة وقت الشراء لعدم وجوبها عليه بخلاف الغني."
(الدر المختار مع ردالمحتار،كتاب الأضحية، 325/6، سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101811
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن