بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لکی ڈرا کی شرعی حیثیت


سوال

سٹی  میں جگہ جگہ لکی ڈرا کے  بکس  رکھے گئے  ہیں،جن میں لوگ  20  یا  50  روپے  کا ٹوکن ڈالتے  ہیں، پھر ایک تاریخ کو قرعہ اندازی ہوتی ہے،جس میں واشنگ مشین، کار وغیرہ نکلتے  ہیں۔

اس کی شرعی حیثیت کیا ہے،کیا یہ جوا ہے؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں  ذکر کردہ صورت شرعاً درست نہیں ہے،اس میں مختلف لوگ انعامات کے حصول کے لیے رقم جمع کراتے ہیں، کسی کو جمع شدہ رقم سے زیادہ انعام ملتا ہے،اور کسی کی جمع شدہ رقم ضائع ہو جاتی ہے،اور اس طرح کا معاملہ  شرعاً قمار(جوا) کہلا تا ہے،جو شرعاً نا جائز ہے، لہذا ایسی کسی بھی سکیم/لکی ڈرا میں حصہ لینے سے اجتناب کریں۔

قرآن مجید میں ہے:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ."[المائدة ]

ترجمہ :"اے ایمان والو بات یہی ہے، کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں ہیں، شیطانی کام ہیں،سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"

( سورۃ المائدۃ،آیت :90،از بیان القرآن )

      مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر."

(‌‌كتاب البيوع والأقضية، ج:12، ص:336، ط: دار كنوز إشبيليا الرياض - السعودية)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن ‌القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في البيع، ج:6، ص:403، ط: سعید)

وفیه ایضاً:

"وشرعا (فضل) ولو حكما فدخل ربا النسيئة۔۔۔(خال عن عوض بمعيار شرعي) مشروط لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر فلو شرط لغيرهما فليس بربا بل بيعا فاسدا (في المعاوضة)."

(کتاب البیوع ،باب الربا ج:5، ص :168، ط:سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں