بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لوڈو (Ludo) کھیلنے کا حکم


سوال

لوڈو کھیلنا جائز ہے یا نہیں ؟

 

جواب

واضح رہے کہ  دین اسلام کھیل اور تفریح سے مطلقاً  منع نہیں کرتا، بلکہ اچھی اور صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، چناچہ بعض کھیل ایسے ہیں  جن کی اجازت خود نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے،  جیساکہ سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، ومنبله. وارموا، واركبوا، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا. ليس من اللهو إلا ثلاث: تأديب الرجل فرسه، وملاعبته أهله، ورميه بقوسه ونبله، ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه، فإنها نعمة تركها «، أو قال:» كفرها". (1/363، کتاب الجہاد، ط؛ رحمانیہ)

ترجمہ:   حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ ایک تیر کے سبب تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: ایک اس کے بنانے والے کو جو کہ اپنے پیشہ میں ثواب کی امید رکھے گا۔ دوسرا تیر پھینکنے والے کو (یعنی جو دوران جنگ تیر استعمال کرے گا) تیسرے اس شخص کو جو تیر انداز کو تیر اٹھا کر دیتا ہے,  پس تیر اندازی کرو اور سواری کرو (یعنی تیر اندازی اور گھوڑ سواری سیکھو) لیکن میرے نزدیک سواری کی نسبت تیر اندازی زیادہ پسندیدہ ہے (کیوں کہ تیر اندازی پیادہ بھی کر سکتا ہے)۔  (ہمارے دین میں) کوئی کھیل نہیں ہے مگر تین چیزیں: ایک اپنے گھوڑے کی تربیت کرنا۔ دوسرے بیوی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ۔ تیسرے اپنے تیر کمان سے تیر اندازی کرنا۔ اور جو شخص تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس کو غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ تیر اندازی ایک نعمت تھی جو اس نے چھوڑ دی یا یہ فرمایا اس نے نعمت کی ناقدری کی۔

  مذکورہ حدیث میں تین کھیلوں کو لہو لعب سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، کیوں کہ  ”لہو “   اس  کام کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو ، جب کہ یہ تینوں  مفید کام ہیں جن سے بہت سے دینی اور دنیوی فوائد وابستہ ہیں ، تیراندازی اور گھوڑے کو سدہانا تو جہاد کی تیاری میں داخل ہے اور بیوی کے ساتھ  ملاعبت  توالد و تناسل کے مقصد کی تکمیل ہے، چناچہ فقہاء کرام نے  ذخیرہ احادیث کو سامنے رکھ کر   چند اصول مرتب کیے ہیں،  جن پر غور کرنے سے موجودہ زمانے کے تمام کھیلوں کا حکم معلوم ہوجاتا ہے، وہ اصول درج ذیل ہیں:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

لہذا ’’لوڈو‘  میں اگر خلافِ شرع امور کا ارتکاب  ہو ، حقوق اللہ (نماز و غیرہ) اور  حقوق العباد میں کوتاہی ہو، فرائض و واجبات کا ترک لازم  آتا ہو  اور گناہ کا ارتکاب (مثلاً شرط لگا کر کھیلنا یا جوا لگانا )  ہو تو یہ بالکل ناجائز ہے، اگر  تفریحِ طبع کے لیے ہو تو بھی وقت کا ضیاع ہے  جو کہ جائز نہیں ہے،  نیز اس طرح کے کھیلوں میں عموماً انہماک اس درجہ کا ہوتا ہے  کہ نماز و دیگر امور میں غفلت ہوجاتی ہے، اور اس بے مقصد کھیل میں قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہی ہے، نیز ایسے کھیلوں میں انہماک کی وجہ سے دل ودماغ اکثر اوقات ان ہی چیزوں کی طرف متوجہ رہتاہے اور خدا کی یاد سے غافل رہتاہے، لایعنی امور میں ایسا انہماک شرعاً ناپسندیدہ ہے، مسلمان کا دل ودماغ ہر وقت یادِ خدا  اور آخرت کی تیاری میں مشغول رہنا چاہیے، اور وقت کو با مقصد کاموں میں  لگانا چاہیے جن میں دینی و دنیوی یا کم از کم دنیوی فائدہ ہو ، لہذا  ایسے بے مقصد اور لایعنی کھیلوں سے بہرصورت اجتناب کرناچاہیے،   اپنے قیمتی وقت کو اچھے اور نیک کاموں میں خرچ کرنا چاہیے۔

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

’’تاش کھیلنا یا لڈو کھیلنا بہت برا ہے، اور اگر اس پر ہار  جیت کی ہو تو جوا ہے اور بالکل حرام ہے، گناہِ کبیرہ سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے، ایک گناہ سے بچنے کے لیے دوسرے گناہ کو اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے، کامیاب مؤمنین کی شان اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کی ہے۔ {وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ}  کامیاب مؤمنین وہ ہیں جو لہو ولعب سے اعراض کرتے ہیں۔

حضرت شیخ الہندؒ لکھتے ہیں کہ: ’’خود تو لہو ولعب میں مصروف نہیں ہوئے، بلکہ اگر کوئی اور شخص بھی لہو ولعب میں مصروف ہو تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں‘‘۔  (ماخوذ از فتاویٰ مفتی محمود ج: 11، ص: 259، باب الحظر والاباحۃ، ط: اشتیاق پریس لاہور)

نیز حدیث شریف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو بے فائدہ ہے ‘‘۔ [مالک، احمد]

ایک اور حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’۔۔۔ یاد رکھو! انسان جس چیز کو لہو ولعب (یعنی محض کھیل اور تفریح) کے طور پر اختیار کرے وہ باطل اور ناروا ہے، مگر اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا، اپنے گھوڑے کو سدھارنا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیل وتفریح کرنا، یہ سب چیزیں حق ہیں‘‘۔(ترمذی، ابن ماجہ)

لہذا صورتِ مسئولہ میں بے مقصد کھیل و تفریح میں وقت ضائع نہ کیا جائے، بلکہ فارغ اوقات اللہ کی یاد  تلاوت قرآن مجید  و دیگر با مقصد کاموں میں صرف کرنے کی عادت بنائی جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں