لو میرج کر سکتے ہیں یا نہیں؟
شریعت نے لڑکے لڑکی کے نکاح کا اختیار والدین کو دے کر انہیں بہت سی نفسیاتی معاشرتی سی الجھنوں سے بچایا ہے، اس لیے کسی واقعی شرعی مجبوری کے بغیر خاندان کے بڑوں کے موجود ہوتے ہوئے لڑکے یا لڑکی کا از خود آگے بڑھنا خدائی نعمت کی ناقدری ہے، بےشمار واقعات شاہد ہیں کہ کسی کے بہکاوے میں آکر کیے گئے یہ نادانی کے فیصلے بعد کی زندگی کو اجیرن کر ڈالتے ہیں، لہذا کورٹ میرج شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً نہایت نامناسب عمل ہے، تاہم اگر لڑکا لڑکی بالغ ہوں تو گواہوں کی موجودگی میں نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اور اگر برابری کا رشتہ نہ ہو تو اولیاء کو ایسا نکاح بذریعہ عدالت فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله ولاية ندب) أي يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لا تنسب إلى الوقاحة بحر."
(كتاب النكاح، باب الولي، جلد:3، صفحہ: 55، طبع: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403101454
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن