بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاٹری کا حکم


سوال

لاٹری کا کیا حکم ہے؟

جواب

”لاٹری “ درحقیقت سود اور جوئے پر مشتمل ہوتی ہے، ’’سود‘‘ اس طور پر کہ شرعاً ’’سود‘‘ اس اضافے کو کہتے ہیں جو ہم جنس مال (نقدی، مکیلی یا موزونی چیز) کے تبادلے میں بغیر عوض آئے اور عقد کے وقت مشروط ہو، جیسے سو روپے کی لاٹری میں اگر انعام کے نام سے ملنے والی رقم نکل آئے تو سو روپے  سے زائد جتنی بھی رقم ہے، وہ ساری کی ساری بلا عوض ہے جو کہ عین سود ہونے کی وجہ سے لینا حرام ہے۔

اور اس میں ’’جوا‘‘ اس طور پر ہے کہ شرعاً ’’جوا‘‘ مال کو واپس ملنے ، نہ  ملنے کے خطرہ میں ڈالنے کو کہا جاتا ہے، پس لاٹری میں لگائی گئی کل رقم ڈوب جانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے اور نہ ڈوبنے کا بھی امکان ہوتا ہے؛ لہٰذا کسی بھی قسم کی لاٹری لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔

جوئے کی حقیقت اور حکم سمجھنے کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

کھیل میں جوئے کی ایک صورت کا حکم

«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 403):

"(قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن ‌القمار من القمر الذي يزداد تارةً و ينقص أخرى، وسمي ‌القمار قمارًا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، و لا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة و النقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي."

تفسير حدائق الروح والريحان في روابي علوم القرآن (8/ 55):

"و القمار كل لعب يشترط فيه أن يأخذ الغالب من المغلوب شيئًا سواء كان بالورق، أو بغيره كالقداح." 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں