بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لندن میں مقیم شخص کی طرف سے قربانی کرنے کے لیے لندن میں عید کی نماز ہونے کا انتظار کرنا ضروری نہیں


سوال

 مجھے ایک آدمی کی طرف سے قربانی کرنی ہے جو کہ لندن میں رہتے ہیں اور لندن میں بھی عید بدھ کو ہی ہے اور یہاں بھی عید بدھ کو ہی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ لندن 4  گھنٹے  پیچھے ہے تو  اگر میں عید کی نماز  پڑھ کر قربانی کردوں  ان کی طرف سے یہاں، تو کیا ان کی قربانی ہو جائے گی؟ یا چار گھنٹے بعد کروں جب ان کی عید کی نماز ہو جائے؟

جواب

اگر آدمی خود کسی اور ملک میں ہو اور قربانی کے لیے کسی کو  دوسرے ملک میں وکیل بنائے تو اس صورت میں قربانی کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قربانی دونوں ممالک کے مشترکہ ایام میں ہو، یعنی جس دن قربانی کی جائے وہ دن دونوں ممالک میں قربانی کا مشترکہ دن ہو، ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی، البتہ قربانی  کے درست ہونے کے لیے شہر میں کم از کم کسی بھی ایک جگہ  عید کی نماز ہونے کے بعد قربانی کرنے کی جو شرط ہے وہ اس جگہ کے ساتھ خاص ہے  جہاں قربانی کی جارہی ہو، لہٰذا آپ اگر لندن میں مقیم کسی شخص کی طرف سے قربانی کرنا چاہتے ہیں تو اس قربانی کے درست ہونے کے  لیے شرط یہ ہے کہ آپ بدھ کے دن پاکستان میں ایسے وقت میں قربانی کریں جب کہ لندن میں دس ذی الحجہ کا دن شروع ہوچکا ہو یعنی لندن شہر میں  طلوع فجر ہونے تک انتظار کرنے کے بعد قربانی کریں، لندن شہر میں عید کی نماز ہونے تک کا انتظار کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ جس شہر میں قربانی کی جارہی ہو اس شہر میں کسی بھی جگہ عید کی نماز ہونے کے بعد جیسے  ہی لندن  شہر میں طلوع فجر کا وقت داخل ہو تو آپ اس لندن میں مقیم شخص کی طرف سے قربانی کرسکتے  ہیں۔

’’شرح العنایۃ علٰی ہامش فتح القدیر‘‘ میں ہے:

’’فلایجوز في لیلة النحر ألبتة لوقوعها قبل وقتها لا في لیلة التشریق المحض لخروجه‘‘.

(الأضحیة، ج:۸، ص:۴۳۲، ط:رشیدیه)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 74):

"وإن كان الرجل في مصر، وأهله في مصر آخر، فكتب إليهم أن يضحوا عنه روي عن أبي يوسف أنه اعتبر مكان الذبيحة، فقال: ينبغي لهم أن لايضحوا عنه حتى يصلي الإمام الذي فيه أهله، وإن ضحوا عنه قبل أن يصلي لم يجزه، وهو قول محمد - عليه الرحمة -. وقال الحسن بن زياد: انتظرت الصلاتين جميعاً، وإن شكوا في وقت صلاة المصر الآخر انتظرت به الزوال، فعنده لايذبحون عنه حتى يصلوا في المصرين جميعاً، وإن وقع لهم الشك في وقت صلاة المصر الآخر لم يذبحوا حتى تزول الشمس، فإذا زالت ذبحوا عنه.

(وجه) قول الحسن: أن فيما قلنا اعتبار الحالين: حال الذبح وحال المذبوح عنه، فكان أولى. ولأبي يوسف ومحمد رحمهما الله أن القربة في الذبح، والقربات المؤقتة يعتبر وقتها في حق فاعلها لا في حق المفعول عنه، ويجوز الذبح في أيام النحر نهرها ولياليها؛ وهما ليلتان: ليلة اليوم الثاني وهي ليلة الحادي عشر، وليلة اليوم الثالث وهي ليلة الثاني عشر، ولايدخل فيها ليلة الأضحى وهي ليلة العاشر من ذي الحجة؛ لقول جماعة من الصحابة -رضي الله عنهم -: أيام النحر ثلاثة، وذكر الأيام يكون ذكر الليالي لغةً، قال الله عز شأنه في قصة زكريا عليه الصلاة والسلام: ﴿ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا﴾ [آل عمران: 41] وقال عز شأنه في موضع آخر: ﴿ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا﴾ [مريم: 10] والقصة قصة واحدة، إلا أنه لم يدخل فيها الليلة العاشرة من ذي الحجة؛ لأنه استتبعها النهار الماضي وهو يوم عرفة؛ بدليل أن من أدركها فقد أدرك الحج، كما لو أدرك النهار وهو يوم عرفة، فإذا جعلت تابعةً للنهار الماضي لاتتبع النهار المستقبل، فلاتدخل في وقت التضحية، وتدخل الليلتان بعدها، غير أنه يكره الذبح بالليل؛ لا لأنه ليس بوقت للتضحية، بل لمعنى آخر ذكرناه في كتاب الذبائح، والله عز شأنه أعلم".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں