بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لونڈی سے ہمبستری کرنا


سوال

کیا لونڈیوں کے ساتھ ہمبستری کرنا جائز  ہے اور لونڈی کا انسان کی زندگی میں کیا مقصد ہے؟

جواب

لونڈی / باندی سے اس کے آقا کے لیے  ہم بستری کرنا  مخصوص شرائط کے ساتھ جائز ہے، قرآن کریم کی آیات  اوراحادیث سے بھی صراحت کے ساتھ اس کاجواز ثابت  ہے۔

مگرباندیوں اور لونڈیوں  سے مرادکیا ہے؟لونڈیوں اور  باندیوں سے مراد آزاد عورتیں  نہیں  ہیں،  اسی طرح  لونڈیوں اور باندیوں سے وہ عورتیں  بھی مراد نہیں ہیں جن  کو طاقتور  طبقہ نے محض طاقت اورقوت  کے بل بوتے پرغلامی کی زنجیروں میں جکڑرکھا ہو۔

لونڈیوں اور باندیوں سے مراد شرعی باندیا ں ہیں، یعنی  وہ غیر مسلم عورتیں ہیں جو جہاد کے بعد غنیمت  میں حاصل ہوگئی ہوں،  ان گرفتار عورتوں کو یا تو مفت میں رہاکردیا جاتا ہے یا معاوضہ لے کر چھوڑدیا جاتا ہے یا ان کے بدلے مسلمان قیدیوں کو دشمن کی قید سے چھڑادیا جاتا ہے، لیکن اگرانہیں احسان کے طورپر آزاد کردینا ملکی مصلحت کے خلاف ہو اوروہ فدیہ بھی نہ اداکریں اورقیدیوں کے تبادلہ   کی بھی صورت نہ بن سکے توپھر اسلامی علاقہ (یعنی دارالاسلام) میں لانے کے بعد خلیفہ وقت  اگر مصلحت سمجھے تو شریعت نے ان کو اختیار دیا ہے کہ انہیں مجاہدین  میں تقسیم کردے، اس تقسیم کی حکمت بھی  ملکی اورتمدنی مصالح،معاشرے کی بہبود  اورخود ان باندیوں کاتحفظ   اورانہیں معاشرے کا ایک معززرکن بنانا ہوتا ہے،تقسیم کے بعد  جس  مسلمان کے حصے میں وہ غلام یا لونڈی  آئے وہ اس کا مالک بن جاتا ہے ،پھر  ان میں جو لونڈی اہلِ  کتا ب میں سے ہو  اگر آقا  اس باندی کاکسی سے نکاح کردے تو وہ  اپنےمالک کے لیے حرام اور صرف اپنے شوہر کے لیے حلال ہوتی ہے اوراگر آقا چاہے تو اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرسکتا ہے  یا بغیر نکاح کے محض استبراءِ رحم کرنے  کے بعد اس سے ازدواجی تعلق قائم کرسکتا ہے اوراگر  اس تعلق کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوگئی تو وہ باندی مالک کے مرنے کے بعدآپ ہی آپ آزاد ہوجاتی ہے۔

اور اگر وہ لونڈی  غیر اہل کتا ب یعنی مشرکہ     یا بت پرست یا دہریہ  ہو تو  اس کے ساتھ نہ تو آقا مباشرت کرسکتاہے اور نہ ہی کسی مسلمان سے اس کا نکاح کراسکتا ہے،  البتہ اگر وہ  اسلام  قبول کرلے تو  پھر آقا اس سے تعلق قائم کرسکتا ہے، اسی طرح دوسرے مسلمان سے اس کا نکاح بھی کراسکتا ہے، اور اس صورت میں وہ صرف اپنے شوہر کے لیے حلال ہوگی، آقا کے لیے قربت کی اجازت نہیں ہوگی۔

غلام وباندی کا دستور  اسلام سے قبل قدیم زمانے سے چلا آرہا تھا اور ہر قوم میں یہ عادت پائی جاتی تھی خواہ عیسائی ہوں یا یہودی، ہنود ہوں یا دیگر اقوام، اسی طرح عربوں میں یہ دستور کثرت سے رائج تھا،  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل غلام یاباندی بنانے کے مختلف طریقے لوگوں میں رائج تھے۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کی ان تمام صورتوں کو سخت ناجائز اور موجبِ عذابِ الٰہی قرار دیا اور صرف ایک صورت کو باقی رکھا  یعنی وہ  کفار جو جنگ میں گرفتا رکیے جائیں، مسلمان حاکم کو اختیار ہے کہ اگر مقتضائے مصلحت و سیاست بہتر سمجھے تو ان کفار قیدیوں کو غلام/باندی بنالے۔

 احادیثِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غلامی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب اور سزا کی ایک صورت ہے جو کفر کی جزا کے طور پر پچھلی امتوں میں جاری کی گئی، اور مسلمانوں کے لیے بھی کسی کو ابتداءً غلام بنانے کی اجازت اسی حالت میں باقی رکھی گئی کہ جو کافر اسلام کے مقابلے پر آجائیں تو ایسے حربی کافروں کو مخصوص احوال میں غلام بنانے کی اجازت دی گئی۔خلاصہ یہ ہے کہ دینِ اسلام میں ابتداءً غلام بنانے کا حکم یا ترغیب نہیں ہے، بلکہ مخصوص احوال میں اس کی گنجائش دی ہے جو اجازت کے درجے میں ہے۔

چوں کہ غلام بنانا اسلام میں بطورِ حکم نہیں، بلکہ بطورِ اجازت ہے، تو مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ جب وہ قرینِ مصلحت سمجھیں، غلام بنانے کا سلسلہ موقوف رکھیں، موجودہ دور میں اقوامِ متحدہ کی سطح پر تمام رکن ممالک کے مابین غلامی کا سلسلہ موقوف کرنے کا معاہدہ ہوچکا ہے، اس لیے اس دور میں مسلمانوں نے بھی یہ سلسلہ بالکل موقوف کردیا ہے، لہٰذا جو ممالک اس معاہدے میں شامل ہیں انہیں معاہدے کی رو سے اس کی پاس داری کرنی لازم ہے۔

لہذا موجودہ دور میں کسی عورت کو باندی یا لونڈی نہیں بنایاجاسکتا ؛ اس لیے کہ غلام/باندی بنانے کی اجازت جن صورتوں میں ہے یہ ان میں داخل نہیں ہے، اس کے لیے جو شرائط ہیں کہ  شرعی جہاد ہو ، امام المسلمین کی رائے ہو اورمسلمانوں اورغیر مسلموں میں کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو جس کی رو سے ایک دوسرے کے قیدیوں کو غلام نہ بنایاجاسکتا ہو  وغیرہ وغیرہ ، موجودہ دور میں یہ شرائط مکمل نہیں ہیں، اس لیے کسی عورت کو باندی بناناجائز نہیں ہے۔(مستفاد از فتاوی بینات،ج:4،ص:452۔ط:مکتبہ بینات)

اسلام میں غلامی کے تصور سے متعلق مزید تفصیل کے لیے معارف القرآن (جلد :8 ،ص:24 ـ،ط:مکتبہ معارف القرآن کراچی ) کا مطالعہ کریں ۔

قرآن مجید میں  ہے:

{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ} [المؤمنون:۵ تا ۸]

وفي بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:

"والأصل أن لا يحل وطء كافرة بنكاح ولا بملك يمين إلا الكتابية خاصة؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن} [البقرة: 221] واسم النكاح يقع على العقد والوطء جميعا فيحرمان جميعا."

(كتاب النكاح.فصل إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة .2/ 271دار الكتب العلمية)

وفيه أيضا:

"إذا اشترى أمة هيمنكوحةالغير أنه لا يثبت للمشتري ملك المتعة، وإن ثبت له ملك الرقبة بالشراء".

(كتاب النكاح ,فصل بيان ما يرفع حكم النكاح2/ 339ط:دار الكتب العلمية)

وفي شرح مختصر الطحاوي للجصاص:

"أن المولى لوزوجأمته من رجل، حرم وطؤها عليه".

(‌‌‌‌كتاب البيوع .باب الاستبراء 3/ 146ط:دار البشائر الإسلامية)

وفي حاشية ابن عابدين:

" (و) صح نكاح (الموطوءة بملك) يمين ولا يستبرئها زوجها بل سيدها وجوبا على الصحيح ذخيرة."

( رد المحتار3/ 49ط :سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں