بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’لوہے‘‘ کی چوڑیاں پہننے کا حکم


سوال

 کیا عورتوں کے لیے کانچ کے علاوہ  مثلًا لوہے  کی چوڑی پہننا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جو حکم لوہے اور دیگر دھاتوں کی چیزیں نہ پہننے سے متعلق مطلقاً وارد ہوا ہے اس کا تعلق انگوٹھی سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں فقہاءِ  کرام نے  مردوں کے لیے صرف چاندی کی انگوٹھی (بشرطیکہ ایک مثقال کے اندر وزن ہو) پہننے کی اجازت دی ہے، اور عورت کے لیے سونے اور چاندی کی انگوٹھی پہننے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ دیگر دھاتوں سے بنائی گئی انگوٹھی پہننے کی نہ مرد کو اجازت ہے نہ عورت کو، جہاں تک چوڑیاں پہننے کا تعلق ہے تو سونے اور چاندی کے علاوہ دیگر تمام دھاتوں بشمول لوہے سے بنی ہوئی چوڑیوں کا پہننا اور اس کا استعمال کرنا عورتوں کے لیے  جائز ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 359):

"(ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها، كحجر)، وصحح السرخسي جواز اليشب والعقيق، وعمّم منلا خسرو، (وذهب وحديد وصفر) ورصاص وزجاج وغيرها؛ لما مر.

(قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب». وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام؟ فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار؟ فطرحه، فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق، ولاتتمه مثقالاً». " فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام، فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني. والشبه محركاً: النحاس الأصفر، قاموس. وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء، (قوله: جواز اليشب) بالباء أو الفاء أو الميم، وفتح أوله وسكون ثانيه وتحريكه خطأ، كما في المغرب، قال القهستاني: وقيل: إنه ليس بحجر، فلا بأس به، وهو الأصح، كما في الخلاصة اهـ".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144211200473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں