بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لوگوں سے کسی چیزکا سوال نہ کرنے پر جنت کی ضمانت سے متعلق ایک حدیث کی تخریج


سوال

کیا درج ذیل حدیث، احادیث کی کتابوں میں موجود ہے؟ رہنمائی فرمائیں: 

’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھے ایک چیز کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس کے لیے میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔ چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کسی سواری پر سوار ہوتے اور ان کا کوڑا گر جاتا تو اس کے اٹھانے کے لیے بھی کسی سے سوال نہ کرتے بلکہ خود اتر کر اٹھا لیتے‘‘۔

جواب

۱۔سوال میں  آپ نے جس حدیث کے متعلق دریافت کیا ہے، یہ حدیث"سنن أبي داود"،"سنن النسائي"،"سنن ابن ماجه"،"مسند أحمد"ودیگرکتبِ احادیث میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مذکور ہے،آپ نے جن الفاظ کا ترجمہ ذکر کیا ہے ،یہ   الفاظ"مسند أحمد"  کی درج ذیل حدیث میں مذکور ہیں:

"حدّثنا محمّد بن عُبيد، حدّثنا محمّد بنُ إسحاق عن العبّاس بن عبد الرحمن عَن عبد الرحمن بن يزيد، حدّثني ثوبانُ مَولى رسولِ الله -صلّى الله عليه وسلّم- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: مَن يَضمنْ لي واحدةً وأضمنْ له الجنّة؟ قال: قلتُ: أنا يا رسولَ الله، قال: لا تَسْألِ الناسَ شيئاً،  قال: فكان سَوطُ ثوبان يسقطُ وهو على بَعيره فيُنيخُ حتّى يأخذَه، وما يقولُ لأحدٍ نَاوِلْنِيه".

(مسند أحمد، تتمة مسند الأنصار، ومن حديث ثوبان، 37/90، رقم:22450، ط:مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھے ایک  چیز کی ضمانت دے دےمیں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول !میں (آپ کو ایک چیز کی ضمانت دیتا ہوں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔ حدیث کے راوی (عبد الرحمن بن یزید)کہتے ہیں: ( آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد سن لینے کے بعد) حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کاکوڑا گرجاتا اورآپ اونٹنی پر سوار ہوتے تو آپ اونٹنی کوبٹھاکرخودہی اسے اٹھالیتےاورکسی سے یہ نہ کہتے کہ یہ   مجھے  (اٹھاکر) دےدو‘‘۔

۲۔مولاناحسام الدین مبارک پوری رحمہ اللہ"مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح"میں مذکورہ حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"(رواه أبوداود والنسائيُّ) ... والحديثُ أخرجه أحمدُ (ج5: ص275-276-277-279-281) وابنُ ماجه والحاكمُ (ج1:ص412) والبيهقيُّ (ج4:ص197)، وسكتَ عنه أبوداود والمنذريُّ في"مختصر السنن". وقال في"الترغيب": إسنادُه صحيحٌ. وصحَّحه الحاكمُ على شرطِ مُسلمٍ، ووافقَه الذهبيُّ".

(مرعاة المفاتيح،  كتاب الزكاة، باب من لا تحل له المسألة ومن تحل له، الفصل الثالث،  6/280-281،  رقم:1872، ط: إدارة البحوث العلمية والدعوة والإفتاء)

ترجمہ:

’’اس حدیث کو( امام) ابوداود رحمہ اللہ نے(سنن أبي داود)میں  اورامام نسائی رحمہ اللہ نے(سنن النسائي)میں روایت کیا ہے۔۔۔نیز( امام) احمد رحمہ اللہ نے(مسندأحمد) میں (ج: ۵، ص: ۲۷۵، ۲۷۶، ۲۷۷ ،۲۷۹، ۲۸۱) پر، (امام) ابنِ ماجہ رحمہ اللہ نے(سنن ابن ماجه)میں،(امام) حاکم رحمہ اللہ نے(المستدرك على الصحيحين)میں (ج:۱، ص:۴۱۲) پراور(امام )بیہقی رحمہ اللہ نے(السنن الكبرى)میں (ج:۴، ص:۱۹۷) پراس  کی تخریج کی ہے۔(امام) ابوداود رحمہ اللہ نے (سنن أبي داود) میںاور (حافظ)  منذری رحمہ اللہ نے"مختصر السنن (مختصر سنن أبي داود)میں (اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد )اس پر سکوت کیا ہے۔لیکن"الترغيب (الترغيب والترهيب)"میں  (حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکرکرنے کے بعد) لکھاہے:  إسنادُه صحيحٌ  (اس حدیث کی سند صحیح ہے)۔نیز (امام) حاکم نے بھی(المستدرك على الصحيحين)میںاس کو (امام ) مسلم رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق صحیح قراردیا ہے اور  (حافظ) ذہبی رحمہ اللہ نے بھی (تلخيص المستدرك)میںاس حکم کے بیان کرنے میں ان کی موافقت کی ہے‘‘۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح  اور قابلِ بیان ہے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں