بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لوگوں کو قرضہ فراہم کرنے والا ادارہ اپنے اخراجات بغیر سود لیے کہاں سے پورے کرسکتا ہے ؟


سوال

ہم چاہ رہے ہیں کہ پانچ دس لوگ جمع ہوکر کچھ پیسے جمع کریں اور غریبوں کو کاروبار کے لیے دیں،اس کے لیے آفس بنانا اور قرض لینے والوں کی انکوائری کرناکہ کوئی آدمی دھوکہ سے رقم لے کر بھاگنے والا نہ ہو،قرض وصول کرنے کے لیے گھر گھر جاکر قرض وصول کرنا وغیرہ ۔

جو عملہ اس سارے پروسس میں کام کرے گا ،اس کا خرچہ ،تنخواہ ،بجلی کا خرچہ وغیرہ کہاں سے پوراکیا جائے؟جو کہ اصل رقم پر سود بھی نہ ہو،اور ہمار ا تعاون کرنے والا مقصد بھی پورا ہوجائے،اور مذکورہ اخراجات بھی پورے ہوجائیں۔

نوٹ:یہ پروگرام ابھی تک شروع نہیں کیا ہے ،فتوی آنے کے بعد اس کے مطابق شروع کرنے کا ارادہ ہے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب کمیٹی بنانے والوں کا ارادہ غرباء کو کسی ذاتی منافع کے حصول کے بغیر قرض فراہم کرنا ہے ،لیکن اس سارے پروسس کے اخراجات کے لیے رقم حاصل کرنا چاہتے ہیں ،تو اس کے لیے   بہتر صورت تو یہ ہے کہ چندہ دینے والی کمیٹی کے اراکین ہی ان اخراجات کو پورا کرنے کی ذمہ داری لیں ،تاکہ اصل رقم پر سود لیے بغیر تعاون کرنے کا مقصد پورا ہوجائے یا آفس کے اراکین کو تنخواہ دینے کے لیے لوگوں سے الگ چندہ کیا جائے،اور چندہ عطیات اور نفلی صدقات میں سے ہو،زکوۃ اور صدقہ واجبہ میں سے نہ ہو۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:‌‌

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌إذا ‌أقرض ‌أحدكم ‌قرضا فأهدي إليه أو حمله على الدابة فلا يركبه ولا يقبلها إلا أن يكون جرى بينه وبينه قبل ذلك»

(قبل ذلك) أي الإقراض لما ورد " كل قرض جر نفعا فهو ربا ". قال مالك: لا تقبل هدية المديون ما لم يكن مثلها قبل أو حدث موجب لها."

(كتاب البيوع، باب الربا، الفصل الثالث، ج:5، ص:1926، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: کل قرض جر نفعاً فهو  حرام) أی اذا کان مشروطاً."

(كتاب البيوع، ‌‌باب المرابحة والتولية، ‌‌فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج:5، ص:166، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں