بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لوگوں کے گھروں میں وائی فائی نیٹ کیبل سسٹم لگا کر ماہانہ پیکج کے پیسے لینے کا حکم


سوال

 آج کل جو وائی فائی نیٹ کیبل سسٹم ہے تو اس کا کام کرنا کیسا ہے ؟ یعنی لوگوں کے گھروں میں نیٹ کا کنکشن کر کے پھر ہر ماہ پیکج کے پیسے لینا،آیا یہ پیسہ اور کاروبار حلال ہے یا حرام؟

جواب

واضح رہے کہ جس چیز کا جائز اور ناجائز دونوں طرح استعمال ہوسکتا ہو اس کی خرید وفروخت، سپلائی، ریپیرنگ وغیرہ جائز ہے، اگر کوئی شخص اس کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی پر ہوگا، لیکن جس چیز کا صرف  ناجائز استعمال   ہی ہو  اس کی خرید وفروخت یا اس میں کسی قسم کا تعاون جائز نہیں ہے۔

 وائی فائی اور انٹرنیٹ کیبل وغیرہ کا جائز اور ناجائز دونوں طرح استعمال ہوتاہے، انٹرنیٹ محض ناجائز پروگرام دیکھنے کے لیے مختص نہیں ہے،  بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے جائز کام بھی کیے جاسکتے ہیں، اس لیے وائی فائی اور انٹرنیٹ کیبل گھروں میں لگانے کا کام کرنا حرام نہیں ہے اور اس کی آمدنی بھی حرام نہیں ہے،اگر کوئی شخص اس کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی غلط استعمال کرنے والے پر ہوگا۔

البحرالرائق میں ہے :

"وقد استفيد من كلامهم هنا أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه، وما لا فلا، ولذا قال الشارح: إنه لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة."

(كتاب السير، باب البغاة، 154،155/5، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوٰی شامی میں ہے :

"وكذا لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكراً، وإنما المنكر في استعمالها المحظور اهـ  قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلاً والغناء عارض فلم تكن عين المنكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكراً إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكر بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه."

(كتاب الجهاد، باب البغاة، 268/4، ط: سعید)

درر الحكام في شرح مجلة الاحكام ميں هے:

"‌إذا ‌اجتمع ‌المباشر والمتسبب أضيف الحكم إلى المباشر هذه القاعدة مأخوذة من الأشباه. ويفهم منها أنه ‌إذا ‌اجتمع ‌المباشر أي عامل الشيء وفاعله بالذات مع المتسبب وهو الفاعل للسبب المفضي لوقوع ذلك الشيء ولم يكن السبب ما يؤدي إلى النتيجة السيئة إذا هو لم يتبع بفعل فاعل آخر، يضاف الحكم الذي يترتب على الفعل إلى الفاعل المباشر دون المتسبب."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادة: 90، ط: دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100224

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں