بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاک ڈاؤن کے دوران مدرسین کی تنخواہ اور اضافی ذمہ داریوں کے عوض طے شدہ رقم کا حکم


سوال

 مدارس میں اساتذہ کی تدریس کے علاوہ بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں ( مثلا : مغرب و عشاء کے طلبہ کی نگرانی ، اوقات نماز میں طلبہ کو جگانے اور مسجد لانے کی ذمہ داری وغیرہ ) اور ان ذمہ داریوں کی اجرت باقاعدہ الگ سے طے ہوتی ہے، موجودہ لاک ڈاؤن کے زمانہ میں چوں کہ طلبہ موجود نہیں ہیں؛ اس لیے یہ ذمہ داریاں انجام نہیں دی جاسکتی ہیں،  سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مدرس  صرف تنخواہ کا مستحق ہے یا ان ذمہ داریوں کی اجرت کا بھی مستحق ہے؟  اگر صرف تنخواہ کا مستحق ہے تو تنخواہ اور ان ذمہ داریوں کی اجرت کے درمیان مابہ الفرق کیا ہے ؟ نیز عدم استحقاق کی صورت میں مہتممین کا اپنے مدرسین کو ان ذمہ داریوں کی اجرت دینا اور مدرسین کے  لیے یہ اجرت لینا کہاں تک جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ لاک ڈاؤن  کے دورانیے  میں جن مدارس  کے مدرسین اپنی خدمات باقاعدہ طور پر انجام نہیں دے سکے، اس میں  ادارے اور مدرسین  دونوں  کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہے، یہ رکاوٹ ملکی حالات اور سرکاری احکامات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، تو  یہ سرکاری تعطیلات کے حکم میں ہے اور  اس درمیان  اگر ادارے نے  اپنے مدرسین سے معاملہ ختم بھی نہیں کیا تھا  تو  شرعاً مدرسین اپنی  طے  شدہ تنخواہ  کے مستحق ہوں  گے۔

نیز   مدرسہ کی جانب سے مدرسین کے لیے اضافی ذمہ داری( مثلًا : مغرب و عشاء کے طلبہ کی نگرانی ، اوقات نماز میں طلبہ کو جگانے اور مسجد لانے کی ذمہ داری وغیرہ )  اگر  ابتدائي معاهده كے وقت  ان كي  کل وقتہ  ذمہ داریوں میں داخل ہو  تو   اس  کے عوض  مقرر کی ہوئی اجرت  مدرس کی تنخواہ ہونے  کی وجہ سے اس کا حق ہوگا۔ 

اور اگر ابتدائی معاہدہ صرف تدریس  یا مدرسہ کے اوقات میں ذمہ داریوں کا ہو، اور  بعد میں  الگ سے  اضافی ذمہ داریاں  بھی دی گئی ہوں تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:

1۔۔ یہ  اضافی ذمہ داریاں طلبہ  کی موجودگی کے ساتھ مشروط ہوں  کہ جب طلبہ موجود ہوں گے تو یہ  ذمہ داریاں بھی ادا کرنی ہوں گی اور اس کی اجرت الگ سے ملے گی تو ایسی صورت میں یہ طلبہ کی موجودگی کے ساتھ مشروط ہوگی،  جب طلبہ موجود ہوں گے اسی وقت   اس کی طے شدہ اجرت ملے گی۔ جب طلبہ موجود نہیں ہوں گے تو اس کی اجرت کا استحقاق بھی نہیں ہوگا۔

2۔۔یہ اضافی ذمہ داریاں طلبہ کی موجودگی کے ساتھ مشروط  نہ ہوں تو  اس صورت میں  مدارسِ دینیہ کے عرف کا اعتبار ہوگا، عام طور پر عرف یہ  ہے کہ سالانہ تعطیلات میں یہ الاؤنس نہیں دیا جاتا،  اور سرکاری تعطیلات  وغیرہ میں اس کی کٹوتی نہیں ہوتی، چوں کہ لاؤک ڈاؤن کی تعطیلات سرکاری  ہیں، اس لیے اس صورت میں  مدرسین ان اضافی الاؤنس کے مستحق ہوں  گے۔

البتہ اگر لاک ڈاون کے دوران ادارے نے اپنے ملازم سے معذرت کر لی تھی، یا صرف اضافی ذمہ داری کے معاملہ کو ختم کردیا تھا تو اس صورت میں مدرس اس رقم کا مستحق نہیں ہوگا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 69):

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير واحد (وهو من يعمل لواحد عملًا مؤقتًا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة".

رد المحتار:

قال ط: وفيه أنه إذا استؤجر شهرًا لرعي الغنم كان خاصًّا وإن لم يذكر التخصيص، فلعل المراد بالتخصيص أن لايذكر عمومًا سواء ذكر التخصيص أو أهمله، فإن الخاص يصير مشتركًا بذكر التعميم كما يأتي في عبارة الدرر".

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 288):

"الأجير الخاص: هو من يعمل لمعين عملًا مؤقتًا، ويكون عقده لمدة. ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة؛ لأن منافعه صارت مستحقة لمن استأجره في مدة العقد".

ملتقى الأبحر (ص: 547):

"والأجير الخاص من يعمل لواحد ويسمي أجير واحد ويستحق الأجر بتسليم نفسه مدته".

الفتاوى الهندية (4/ 500):

"والأجير الخاص من يستحق الأجر بتسليم نفسه وبمضي المدة ولا يشترط العمل في حقه لاستحقاق الأجر".

الفتاوى الهندية (4/ 417):

"استأجر أجيرًا شهرًا ليعمل له كذا لايدخل يوم الجمعة للعرف..." الخ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 372):

"وهل يأخذ أيام البطالة كعيد ورمضان لم أره وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي. واختلفوا فيها والأصح أنه يأخذ؛ لأنها للاستراحة أشباه من قاعدة العادة محكمة".

 فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144203200389

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں