بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاک ڈاؤن کی وجہ سے عید کی نماز کیسے ادا کی جائے؟


سوال

لاک ڈاؤن کی حالت میں عید الفطر کی نماز کیسے ادا کریں؛ کیوں کہ ہمارے ملک ہندوستان میں فی الحال مسجدوں میں نماز ادا  نہیں کی جا رہی ہے؟

جواب

اگر عید کے موقع پر بھی یہی صورتِ حال برقرار  رہی یعنی عید  کی نماز  مساجد یا عیدگاہ میں ادا کرنے پر پابندی برقرار رہی تو  لوگوں کو  چاہیے کہ شہر، فنائے شہر یا بڑی بستی میں مساجد کے علاوہ جہاں بھی امام کے علاوہ جتنے بھی افراد جمع ہوسکیں جمع ہوکر  عید کی نماز ادا کرلیں؛ چناں چہ عید کی نماز کا وقت (یعنی اشراق کا وقت) داخل ہوجانے کے بعد امام دو رکعت نماز  بایں طورپڑھا ئے کہ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد تین زائد تکبیرات کہے، اور ہر تکبیر میں رفع یدین بھی کرے، تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، اس کے بعد رکوع سجود حسبِ معمول کرے، اور دوسری رکعت میں کھڑے ہوکر پہلے سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھنے کے بعد تین زائد تکبیرات کہے، اور سب رفع یدین بھی کریں، اس کے بعد چھوتھی تکبیر رکوع کے لیے کہی جائے، بقیہ نماز حسبِ ادا کی جائے۔ 

عید کی نماز ادا کرنے کے بعد امام ممبر ( اگر ہو) یا زمین پر کھڑےہوکر  دو خطبے کہے، اگر خطبہ یاد نہ ہو تو دیکھ کر پڑھ لے، اور اگر دیکھ کر پڑھنا دشو ار ہو یا خطبہ دست یاب ہی نہ ہو تو حمد و صلاۃ کے بعد کچھ قرآنی آیات پہلے اور دوسرے خطبہ میں پڑھ لے۔

اگر کسی شہر یا بڑی بستی میں کم از کم دو مرد بھی جمع نہ ہوسکیں تو عید کی نماز انفرادی طور پر یا صرف عورتوں کی جماعت کے ساتھ ادا نہیں کی جائے گی۔

ملحوظ رہے کہ یہ حکم موجودہ اضطراری صورتِ حال کے لیے ہے، عام حالات میں عید کی نماز عیدگاہ یا بڑی جامع مسجد میں بڑے اجتماع میں ادا کرنا شرعاً مطلوب ہے۔

سہولت کے لیے دیکھیے خطبہ عید :

https://www.banuri.edu.pk/readquestion/غیر-متعلقہ-سوال/15-06-2018

النهر الفائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"وفي (جامع قاضي خان): وإذا ثبت اختصاص التكبير بالمصر علم أنه من الشعائر بمنزلة الخطبة فيشترط له ما يشترط للجمعة، إلا ما سقط اعتباره من السلطان والحرية في الأصح والخطبة كذا في (المعراج)، وعليه جرى الشارح قال في (البحر): وليس بصحيح إذ ليس الوقت والإذن العام من شروطه.

وأقول: بل هو الصحيح؛ إذ من شرائطه الوقت أعني أيام التشريق حتى لو فاتته الصلاة في أيامه فقضاها في غير أيامه أو في أيامه من القابل لا يكبر بخلاف ما إذا قضاها في أيامه من تلك السنة حيث يكبر لأنه لم يفت عن وقته من كل وجه.

وإذا لم يشترط السلطان أو نائبه فلا معنى لاشتراط الإذن العام وكأنهم استغنوا بذكر السلطان عنه، على أنا قدمنا أن الإذن العام لم يذكر في الظاهر. نعم بقي أن يقال: من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الإمام جماعة، فكيف يصح أن يقال: إن شروطه الجمعة. وهذا كله قول الإمام، وقالا: هو على كل من يصلي المكتوبة؛ لأنه تبع لها. والفتوى على قولهما في هذا أيضًا، كما في السراج". ( باب صلاة العيدين، ١ / ٣٧٣، ط: دار الكتب العلمية)

الفقه علي المذاهب الأربعة  میں ہے:

"الحنفية قالوا: صلاة العيدين واجبة في الأصح على من تجب عليه الجمع بشرائطها، سواء كانت شرائط وجوب أو شرائط صحة، إلا أنه يستثنى من شرائط الصحة الخطبة، فإنها تكون قبل الصلاة في الجمعة وبعدها في العيد، ويستثنى أيضاً عدد الجماعة، فإن الجماعة في صلاة العيد تتحقق بواحد مع إمام، بخلاف الجمعة، وكذا الجماعة فإنها واجبة في العيد يأثم بتركها، وإن صحت الصلاة بخلافها في الجمعة، فإنها لا تصح إلا بالجماعة، وقد ذكرنا معنى الواجب عند الحنفية في "واجبات الصلاة" وغيرها، فارجع إليه". (مباحث صلاة العيدين، حكم صلاة العيدين، ووقتهما، ١ / ٣١٣، ط: دار الكتب العلمية) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201897

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں