بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مساجد میں کھانا کھانے یا کھلانے کا حکم


سوال

 ایک مدرسے میں کچھ ایسا نظام بنا لیا گیا ہے کہ اس میں تمام طلباء ، اساتذہ کے لیے روزانہ مسجد میں باقاعدہ کھانے کے لیے دسترخوان لگایا جاتا ہے, دوپہر اور شام کے وقت مسجد ہی میں کھانا کھاتے ہیں, کبھی کبھار مہتمم صاحب بھی کھاتے ہیں اور کھانے کے دوران کبھی دین کی باتیں اور کبھی دنیا کی بھی باتیں کرتے ہیں.... جب کہ اس مدرسہ میں مسجد کے علاوہ اور بھی ایسی جگہ ہے جہاں بچے اور اساتذہ اور ناظم مدرسہ کھانا کھا سکتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے مسجد کو کھانا کھانے کے لیے استعمال کرنا اور کھانے کے دوران دینی و دنیوی باتیں کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد بنانے کا مقصد ذکراللہ اور عبادتِ الہٰی  ہے، مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا، پینا اور سونا مکروہ ہے؛اور  مسجد میں صرف معتکف کے لیے کھانے پینے کی اجازت ہے، ہرایک کے لیے کھانے پینے کی اجازت نہیں ہے، لہذا بہ شرط صحت سوال طلباء ، اساتذہ کے لیے روزانہ مسجد میں باقاعدہ کھانا کھلانے کا معمول بنانا  اورکھانے کے دوران کبھی دین کی باتیں اور کبھی دنیا کی بھی باتیں کرنا    درست نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

" وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب : (قوله: وأكل ونوم إلخ) وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف، فيدخل ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي ثم يفعل ما شاء، فتاوى هندية."

(‌‌كتاب الصلاة،أفضل المساجد مكة، ثم المدينة، ٦٦١/١،ط: دار الفكر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية. "

‌‌[كتاب الكراهية،الباب الخامس في آداب المسجد،٣٢١/٥،ط: المطبعة الكبرى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں