بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شعبان 1446ھ 08 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

لائن کے ذریعے گھر میں آنے والے پانی کو فروخت کرنے کا حکم


سوال

لائن کے ذریعے گھر میں آنے والےپانی کو شرعی اور قانونی اعتبار سے فروخت کرسکتے ہیں یا نہیں؟

وضاحت:پانی کو کس طرح بیچتے ہیں اور لوگوں کیا کہہ کر بیچتے ہیں؟

جواب:لائن کا پانی لوگوں  کو منرل پانی ظاہر کرکے منرل پانی  ہی کی طرح چھوٹی اور بڑی بوتلوں میں ڈال کربیچتے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں لائن کے ذریعے گھر میں آنے والے پانی کو ٹینکی ،بوتل یا کسی بھی برتن میں محفوظ کرنے کے بعد اسے  شرعا فروخت کرسکتے ہیں ،البتہ لائن کا پانی لوگوں کو منرل پانی ظاہر کرنا ایک دھوکا دہی ہے جو کہ ناجائز ہے۔

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام. فأدخل يده فيها. فنالت أصابعه بللا. فقال "ما هذا يا صاحب الطعام؟ " قال: أصابته السماء. يا رسول الله! قال " أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ ‌من ‌غش فليس مني"

ترجمہ:" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے توآپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا، آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو آپ نے فرمایا: ” غلے کے مالک! یہ کیا ہے؟“ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ آپ نے فرمایا: ” توتم نے اسے (بھیگے ہوئے غلے) کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لو گ اسے دیکھ لیتے؟ جس نے دھوکا کیا، وہ مجھ سے نہیں۔“ (ان لوگوں میں سے نہیں جنہیں میرے ساتھ وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔)

 (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، ‌‌ باب قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم " من غشنا فليس منا، ج:1، ص:99،رقم:101،   ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز بيع الماء في بئره ونهره هكذا في الحاوي وحيلته أن يؤاجر الدلو والرشاء هكذا في محيط السرخسي فإذا أخذه وجعله في جرة أو ما أشبهها من الأوعية فقد أحرزه فصار أحق به فيجوز بيعه والتصرف فيه كالصيد الذي يأخذه كذا في الذخيرة وكذلك ماء المطر يملك بالحيازة كذا في محيط السرخسي.وأما بيع ماء جمعه الإنسان في حوضه ذكر شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده في شرح كتاب الشرب أن الحوض إذا كان مجصصا أو كان الحوض من نحاس أو صفر جاز البيع على كل حال وكأنه جعل صاحب الحوض محرز الماء بجعله في حوضه."

(كتاب البيوع، الباب التاسع، الفصل في بيع الماء والجمد،  ج:3، ص:121،  ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال الرملي: إن صاحب البئر لا يملك الماء كما قدمه في البحر في كتاب الطهارة في شرح قوله: وانتفاخ حيوان عن الولوالجية فراجعه، وهذا ما دام في البئر، أما إذا أخرجه منها بالاحتيال كما في السواني فلا شك في ملكه له لحيازته له في الكيزان ثم ‌صبه ‌في ‌البرك بعد حيازته. تأمل، ثم حرر الفرق بين ما في البئر وما في الجباب والصهاريج الموضوعة في البيوت لجمع ماء الشتاء بأنها أعدت لإحراز الماء فيملك ما فيها."

(كتاب البيوع،  ج:5، ص: 67،  ط: سعيد)

تبيين الحقائق ميں ہے:

"لا يحل له أن يبيع المعيب حتى يبين عيبه لقوله عليه السلام: «لا يحل لمسلم باع من أخيه بيعا وفيه عيب إلا بينه له» رواه ابن ماجه وأحمد بمعناه «و مر عليه السلام برجل يبيع طعاما فأدخل يده فيه فإذا هو مبلول فقال من ‌غشنا ‌فليس ‌منا» رواه مسلم وغيره «وكتب عليه السلام كتابا بعد ما باع فقال فيه هذا ما اشترى العداء بن خالد بن هودة من محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم اشترى منه عبدا أو أمة لا داء ولا غائلة ولا خبثة بيع المسلم للمسلم» رواه ابن ماجه."

(کتاب البیوع ،باب خیار العیب،ج:4،ص:31،ط:المطبعہ الکبری)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام  ،إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان." 

(كتاب البيوع، باب خيار العيب، ج:5، ص:47، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144605100844

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں