بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لکھ کر طلاق دینے کا حکم


سوال

 میرے دوست کی اہلیہ گزشتہ چند دنوں سے روٹھ کر اپنے والد کے گھر پہ رہائش پذیر تھی؛ لہذا میرے دوست نے غصے میں اپنے دفتر سے اپنے آفس بوائے کے ہاتھ کاغذ پر لکھ کر ایک خط بھجوا دیا۔ جس پر اس نے لکھا کہ میں طلاق دیتا ہوں۔ تو کیا اس طرح طلاق واقع ہوگئی ہے؟ اور اب میرا دوست اپنی اس غلطی پر پشیمان ہے اور اپنی اہلیہ سے دوبارہ تعلق رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم شریعتِ  رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس بارے میں جلد از جلد وضاحت فرما دیجیے!

جواب

واضح رہے کہ طلاق جس طرح زبان سے الفاظ طلاق کے  ادا کرنے سے واقع ہو جاتی ہے اسی طرح لکھ کر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے دوست نے اپنی اہلیہ کو یہ الفاظ لکھ کر خط بھیجا کہ  "میں طلاق دیتا ہوں"  اور یہ الفاظ ایک مرتبہ ہی لکھے تھے تو ایسی صورت میں آپ کے دوست کی اہلیہ پر ایک طلاق واقع ہو گئی، اب اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو عدت میں رجوع کر کے ساتھ رہ سکتے ہیں، رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر زبان سے یہ کہہ دے کہ میں نے رجوع کیا، ایسا کہہ لینے سے رجوع ہو جائے گا، سنت یہ ہے کہ اس پر دو آدمیوں کو گواہ بھی مقرر کر لے اور اگر عدت    میں رجوع نہ کیا تو  ساتھ رہنے کے لیے عدت کے بعد نئے مہر کے ساتھ شرعی گواہوں کی موجودگی میں  نیا نکاح کرنا ضروری ہو گا۔

بیوی حمل سے نہ ہو تو عدت تین ماہواریاں ہے، اور بیوی کو ایام نہ آتے ہوں تو عدت تین ماہ ہے، اور حمل سے ہو تو بچے کی پیدائش تک عدت ہے۔

العناية شرح الهداية (4/ 158):

(وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض) لقوله تعالى{فأمسكوهن بمعروف} [البقرة: 231]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200820

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں