بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڈو اور شطرنج کھیلنے کا حکم


سوال

لڈو اور شطرنج کھیلنا کیسا ہے?

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جن سے جسمانی فائدہ ہوتا ہو ، جیسے: تیراکی، تیراندازی ،گھڑسواری  اور ان کھیلوں کی حوصلہ شکنی  کی ہے جن میں لگنے سے وقت کا ضیاع ہوتا ہو اور ایسے کھیلوں کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے  گناہوں کا ارتکاب لازم آتا ہو یا وہ کھیل فساق و فجار کے کھیل ہوں۔

شطرنج کھیل اگر  جوئے   کی شرط کے  ساتھ کھیلا جائے تو ناجائز اور حرام ہے اور ہارجیت کی شرط کے بغیر  بھی کھیلنا مکروہِ تحریمی ہے۔

امداد الفتاوی میں ہے:

"اگر چہ شطرنج انصاب میں جو بمعنی بت کے ہے، داخل نہیں، مگر دوسرے دلائل سے حرام ہے، اگر مع القما ر ہو تو بالاجماع; لقوله تعالی: {انما الخمروالمیسر...} الآیة اور بدون قمار کے ہے تو مع الاختلاف، یعنی ہمارے نزدیک اس وقت بھی حرام ہے؛  لإطلاق ما روی صاحب الهدایة؛ لقوله علیه السلام: من لعب بالشطرنج والنردشیر فکأنما غمس یده في دم الخنزیر، ولقول علي رضي اﷲ عنه حین مر بقوم یلعبون بالشطرنج، فقال: ما هذه التماثیل التي أنتم لها عاکفون؟ وروی مثل هذا عن عمر رضي اﷲ عنه أیضاً حین مر بقوم یلعبون بالشطرنج، وقد شبه عملهم بعمل بعبادة الأوثان. اهـ غایة البیان ۱۲. وعن عبیداللّٰه بن عمر رضي اﷲ عنه أنه قال للقاسم بن محمد: هذه النرد یکرهونها فما بال الشطرنج؟ قال: کل ما ألهی من ذکر اللّٰه وعن الصلوٰة فهو میسر. تخریج زیلعی۱۲". (امداد الفتاوی جدید  347/9)

’’لڈو‘‘  میں اگر خلافِ شرع امور کا ارتکاب  ہو ، حقوق اللہ (نماز و غیرہ) اور  حقوق العباد میں کوتاہی ہو، فرائض و واجبات کا ترک لازم  آتا ہو  اور گناہ کا ارتکاب (مثلاً شرط لگا کر کھیلنا یا جوا لگانا )  ہو تو یہ بالکل ناجائز ہے، اگر  تفریحِ طبع کے لیے ہو تو بھی وقت کا ضیاع ہے  جو کہ جائز نہیں ہے،  نیز اس طرح کے کھیلوں میں عموماً انہماک اس درجہ کا ہوتا ہے  کہ نماز و دیگر امور میں غفلت ہوجاتی ہے، اور اس بے مقصد کھیل میں قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہی ہے، نیز ایسے کھیلوں میں انہماک کی وجہ سے دل ودماغ اکثر اوقات ان ہی چیزوں کی طرف متوجہ رہتاہے اور خدا کی یاد سے غافل رہتاہے، لایعنی امور میں ایسا انہماک شرعاً ناپسندیدہ ہے، مسلمان کا دل ودماغ ہر وقت یادِ خدا  اور آخرت کی تیاری میں مشغول رہنا چاہیے، اور وقت کو با مقصد کاموں میں  لگانا چاہیے جن میں دینی و دنیوی یا کم از کم دنیوی فائدہ ہو ، لہذا  ایسے بے مقصد اور لایعنی کھیلوں سے بہرصورت اجتناب کرناچاہیے،   اپنے قیمتی وقت کو اچھے اور نیک کاموں میں خرچ کرنا چاہیے۔

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

’’تاش کھیلنا یا لڈو کھیلنا بہت برا ہے، اور اگر اس پر ہار  جیت کی ہو تو جوا ہے اور بالکل حرام ہے، گناہِ کبیرہ سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے، ایک گناہ سے بچنے کے لیے دوسرے گناہ کو اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے، کامیاب مؤمنین کی شان اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کی ہے۔ {وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ}  کامیاب مؤمنین وہ ہیں جو لہو ولعب سے اعراض کرتے ہیں۔

حضرت شیخ الہندؒ لکھتے ہیں کہ: ’’خود تو لہو ولعب میں مصروف نہیں ہوئے، بلکہ اگر کوئی اور شخص بھی لہو ولعب میں مصروف ہو تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں‘‘۔  (ماخوذ از فتاویٰ مفتی محمود ج: 11، ص: 259، باب الحظر والاباحۃ، ط: اشتیاق پریس لاہور)

الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 380):
"ويكره اللعب بالشطرنج والنرد والأربعة عشر وكل لهو"؛ لأنه إن قامر بها فالميسر حرام بالنص، وهو اسم لكل قمار، وإن لم يقامر فهو عبث ولهو. وقال عليه الصلاة والسلام: "لهو المؤمن باطل إلا الثلاث: تأديبه لفرسه، ومناضلته عن قوسه، وملاعبته مع أهله"، وقال بعض الناس: يباح اللعب بالشطرنج؛ لما فيه من تشحيذ الخواطر وتذكية الأفهام، وهو محكي عن الشافعي رحمه الله. لنا قوله عليه الصلاة والسلام: "من لعب بالشطرنج والنردشير فكأنما غمس يده في دم الخنزير"؛ ولأنه نوع لعب يصد عن ذكر الله وعن الجمع والجماعات فيكون حراماً؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: "ما ألهاك عن ذكر الله فهو ميسر"۔ ثم إن قامر به تسقط عدالته، وإن لم يقامر لا تسقط؛ لأنه متأول فيه".

شرح مختصر الطحاوي للجصاص (8/ 544):
"قال: (ويكره اللعب بالشطرنج، والنرد، وكل اللهو)، وذلك لقول الله تعالى: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِىْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ﴾. فذم عليه، وأوعد عليه بالعقاب، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لست من دد، ولا الدد مني". وقد روي في النهي عن اللعب بالشطرنج عن النبي عليه الصلاة والسلام أحاديث. وروي "أن علياً رضي الله عنه مر بقوم يلعبون بالشطرنج، فقال: ﴿ هٰذِهِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِيْ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ ﴾ ؟!". وهذا يدل على كراهة شديدة لذلك". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں