بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لیکوریا کی مریضہ کا حکم


سوال

مجھے کافی عرصہ سے لیکوریا کی شکایت ہے جس سے اکثر و بشتر کپڑے پہ داغ لگ جاتا ہے، بسا  اوقات دوران نماز بھی یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے. میرا سوال یہ ہےکہ اگر کسی عورت کو لیکوریا کا مرض ہو تو کیا اس سے اس کے کپڑے ناپاک ہو جاتےہیں؟کیا ان میں وضو اور نماز کو قائم رکھ سکتے  ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ لیکوریا کی رطوبت ناپاک ہے، اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، دوبار بغیر وضو کیے نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔

باقی نماز کی ادائیگی کے لیے تفصیل یہ ہے کہ سائلہ کواگر لیکوریا کی  بیماری کے باوجودوضوکرنے کے بعد پاکی کی حالت میں ایک وقت کی نماز پاکی و طہارت کے ساتھ اداکرنے کا موقع مل جاتا ہے،اور نماز کے دوران لیکوریا کی رطوبت کا اخراج نہیں ہوتا،تو ہر نماز پاک صاف ہوکر  وضو کرکے ادا کرنا ضروری ہے۔

البتہ اگر بیماری کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ کسی نمازکے مکمل وقت میں اتنا وقفہ نہ ملےجس میں وہ وضو کرکے پاکی کی حالت میں اس وقت کی فرض نماز  ادا کرسکے تو وہ معذور کے حکم میں ہے، اور معذور کا شرعی حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد ایک مرتبہ وضوکرلیا کرے اور پھر اس وضو سے جتنی  نمازیں پڑھنا چاہے پڑھے اور دیگر عبادات بھی ادا کرے ،جب تک اس نماز کا وقت باقی ہے ، وضو برقرار رہےگا،چاہے اس دوران لیکوریا کی رطوبت نکلتی رہے،البتہ اگر وضو کے بعد  لیکوریا  کی رطوبت (یعنی جس بیماری کی وجہ سے وہ معذور کے حکم میں ہے ) کے  علاوہ کوئی اور وضو توڑنے والی چیز  صادر ہو تو اس سے  وضو ٹوٹ جائے گا،اسی طرح جب ایک نماز کا وقت ختم ہوجائے تو اس سے بھی اس کا وضو ٹوٹ جائے گا،اگلی نماز کاوقت داخل ہونے کے بعد نیا وضوکرے نیزباقی ایک دفعہ معذور بن جانے کے بعد معذوری برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت میں کم از کم ایک دفعہ اسےیہ عذر پیش آئے،اگر ایک نماز کا وقت بغیر عذر کے گزر گیا تو سائلہ معذور نہیں رہے گی۔

نیز لیکیوریا کی رطوبت نجس ہے،کسی کپڑے پر لگ جائے تو کپڑا ناپاک ہوجائے گا،  لہذاکپڑا پاک کرنے کے بارے میں یہ تفصیل  ہے کہ اگر اتنا وقفہ مل جائے کہ کپڑادھوکرنماز پڑھ لی جائے اور نماز کے درمیان وہ دوبارہ ناپاک نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں کپڑادھونا واجب ہے، اوراگر یہ حالت ہو کہ کپڑا دھو کر نماز پڑھنے کے درمیان وہ پھرناپاک ہوجاتا ہو تو دھوناواجب نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل.(وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: ٧٨]- (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه.وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.

(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى

(قوله: اللام للوقت) أي: فالمعنى لوقت كل صلاة، بقرينة قوله بعده فإذا خرج الوقت بطل، فلا يجب لكل صلاة." 

(کتاب الطهارۃ , باب الحیض جلد ۱ ص: 305 , 306 ط: دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407101469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں