آج کل دوپٹہ اور لباس پر شاعری اور عبارات وغیرہ کا کافی رواج ہوگیا ہے، اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے۔ کیا ایسا کپڑا پہننا، خریدنا یا بیچنا جائز ہے؟
حروفِ تہجی قابلِ احترام ہیں، اس لیے ان حروف کو ایسی جگہ لکھنا جس سے اس کی بے ادبی کا اندیشہ ہو درست نہیں ہے،لہذا پہننے اوڑھنےکے کپڑوں اور ڈوپٹوں پر اگر حروف تہجی پرنٹ ہوں تو اس میں بعض صورتوں میں تو بے ادبی کا صدور اور بعض میں اس کا اندیشہ موجود ہے، مثلاً قمیص اور ڈوپٹے وغیرہ پر اگر حروف پرنٹ ہوں تو اگرچہ ظاہر میں بے ادبی نہیں ہے، لیکن اندیشہ ہے کہ دھلنے میں یا بعد میں پرانے ہونے کی صورت میں پھینکنے پر بے ادبی ہوگی، اور اگر شلوار یا پائجامہ پر یہ حروف ہوں تو اس میں بے ادبی ہونا ظاہر ہے، اس لیے ایسا کپرا پہننے اوڑھنے سے گریز کرنا چاہیےاور ایسےکپڑوں کی خرید وفروخت بھی نہیں کرنی چاہیے۔
البتہ اگر کپڑے پر کتابت کا مقصد انہیں فریم وغیرہ کرا کر (جیسا کہ آیۃ الکرسی وغیرہ لکھی جاتی ہے) اونچی جگہ لگانا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا كتب اسم فرعون أو كتب أبو جهل على غرض يكره أن يرموا إليه؛ لأن لتلك الحروف حرمة، كذا في السراجية."
(كتاب الكراهية،الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،ج5،ص323،ط؛دار الفکر)
وفیہ ایضاً:
"وليس بمستحسن كتابة القرآن على المحاريب والجدران لما يخاف من سقوط الكتابة وأن توطأ وفي جمع النسفي مصلى أو بساط فيه أسماء الله تعالى يكره بسطه واستعماله في شيء وكذا يكره إخراجه عن ملكه إذا لم يأمن من استعمال الغير فالواجب أن يوضع في أعلى موضع لا يوضع فوقه شيء، وكذا يكره كتابة الرقاع وإلصاقها بالأبواب لما فيه من الإهانة. كذا في الكفاية."
(کتاب الصلاۃ،ج1،ص110،ط؛دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407102193
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن