بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لے پالک کی ولدیت کے خانے میں حقیقی والد کا نام لکھنا ضروری ہے


سوال

میری اہلیہ نے اپنی سگی بھانجی سے لڑکا گود لیا ہے،  ہمیں سب سے بڑی پریشانی کا سامنا یہ ہے کہ ہر دستاویزات میں اس کے حقیقی باپ کے ڈاکومینٹس کی ضرورت پڑ رہی ہے، اور ہمیشہ  وہ دستیاب بھی نہیں ہوتے،  اب ہم بڑی کشمکش کا شکار ہیں، اس کے حقیقی باپ کی محتاجی ہے، آگے بچے نے  بڑا ہونا ہے،  اسکول کالج یونیورسٹی، باہر ملک  پڑھنے جانا، پھر اس کی سپانسرشپ  وغیرہ یہ سب  معاملات میں باپ کی اور اس کےڈاکومینٹس کی ضرورت پڑتی  رہے گی، ہم اور بچہ کہاں تک اس کے حقیقی باپ کے پیچھے بھاگتے  رہیں گے، اور  دوسرا خدشہ یہ بھی ہے  کہ کل کو ان کا  ارادہ بدل جائے  اور  بچہ واپس لے لیں،  پھر ہمارا کیا بنےگا؟!  کیایہ ممکن ہے کہ ڈاکومینٹس کو اپنے نام سے بنایا جائے؛ تاکہ آگے کی زندگی میں ہمیں اور اس بچے کو پریشانی  نہ  ہو ۔   ہم ہمیشہ اس بچے کو اس کے حقیقی باپ سے منسوب رکھیں  گے، کبھی بھی حقیقی باپ کی پہچان کو چھپائیں گے نہیں، صرف ڈاکومینٹس میں اپنا نام رکھیں گے اور اس بچہ کی پہچان کو ہمیشہ اس کے حقیقی باپ سے رکھیں  گے۔  بہت مہربانی  ہوگی ہماری مدد کریں، ہم میاں بیوی 13 سال سے بے اولاد ہیں اور میری اہلیہ اب کبھی ماں بھی نہیں بن سکتی!

جواب

واضح رہے کہ  شریعتِ مطہرہ میں لے پالک اور منہ بولے بیٹے کی حیثیت حقیقی اولاد  کی طرح نہیں ہے،  اور  کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے  وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے احکام جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود میں لینے والے کو  بچے کی  پرورش، تعلیم وتربیت  اور اسے ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملتا ہے،  جاہلیت کے زمانہ  میں  یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی۔ اور لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔  جب  رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ”متبنیٰ“ (منہ بولا بیٹا)   بنایا اور لوگ ان کو ”زید بن محمد“ پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ  ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا }   [الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں  مذکورہ بچے کی ولدیت کے خانے میں اس کے  حقیقی والد کا ہی نام لکھوانا ضروری ہے، ولدیت کے خانے میں  اپنا نام لکھنا جائز نہیں ہے، البتہ سرپرست کے خانہ میں اپنا نام لکھوانا جائز اور درست ہے، لہذا   تعلیمی اداروں یا دیگر اداروں کے کاغذات میں آپ سرپرست کے خانے  میں اپنا اندراج کروادیجیے، تاکہ تعلیمی اور دیگر امور میں  بار بار اصل والدین کو زحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102392

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں