بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لے پالک بچے کے کاغذات میں ولدیت کے نسبت اپنے طرف کرنے کا حکم


سوال

 زید کے دو لے پالک بچے ہیں ، جو رائج فلاحی اداروں سے گود لیے گئے ، اورایک لڑکا ہے ایک لڑکی ہے ، اب یہ دونوں بچے جوانی کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں ، بلوغت کے بعد ان اصحاب میں شرعی پردے کا حکم بھی لگ چکا ، جو عملا نہیں ہو رہا ہے ، ولدیت وغیرہ میں زید نے اپنا اور اپنی اہلیہ محترمہ کا نام لکھ رکھا ہے ،اور تمام سرکاری اور شناختی دستاویزات پر یہی نام لکھے چل رہے ہیں ،ان تمام حالات میں معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ان ناموں کو خصوصاً ولدیت کو اسی طریقے سے چلانا ممکن ہے ،یا اس صورتِ حال کی تبدیلی شرعاً لازم ہے ؟ بچوں کو اگر اب یہ بتایا جائے کہ تم اولاد نہیں ہو ، غیر ہو تو سارا نظام بگڑ سکتا ہے ۔،بچے اوائل ِجوانی کے اس دور میں کوئی انتہائی جذ باتی قدم ، کوئی بڑا   نامناسب قدم بھی اٹھا سکتے ہیں ، مطلب کوئی ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ بھی موجود ہے ، خصوصاً جب کہ بچوں کی مذہبی تربیت بھی بہت اچھی نہیں ہے ۔ کیا اس خاندانی سلسلے اور ولدیت وغیرہ کو اسی طرح چلائے رکھنے کی ان حالات میں کوئی شرعی گنجائش ، کوئی صورت موجود ہے ،شریعت اسلامیہ کی روشنی میں اس سب صورتِ حال میں آپ کیا کرنے کا حکم فرماتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں لے پالک اور منہ بولے اولاد کی حقیقی اولاد کی طرح حیثیت نہیں ہے،اور کسی کو منہ بولا بیٹا /بیٹی بنانے سے وہ حقیقی بیٹا /بیٹی نہیں بن جاتے ، اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والےاحکام جاری ہوتے ہیں، البتہ گود میں لینے والے کو بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت اور اسے ادب و اخلاق سکھانے کا ثواب ملتا ہے، جاہلیت کے زمانہ میں یہ دستور تھا، کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولادکا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کر کے یہ اعلان کر دیا ،کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہو سکتی، اور لے پالک اور منہ بولے اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے، البتہ ایسے بچوں کے حوالہ سے اَحکم الحاکمین کا فرمان ہے ،کہ ان کو ان کے اصل والد کے نام سے ہی منسوب کیا جائے ، اس میں ردو بدل نہ کیا جائے۔ 

لہذا صورت مسئولہ میں زیرِ  پرورش بچوں کو اپنے حقیقی والد کی طرف نسبت کر کے بلایا جائے ، کیوں کہ لے پالک بچوں کو حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے، لہذا تعلیمی سرٹیفیکیٹ ، دیگر سرکاری کا غذات اور وہ تمام جگہیں جہاں بچوں کے ساتھ والد کا نام لکھا جاتا ہے، وہاں حقیقی والد کا نام لکھا جائے، پرورش کرنے والے کا نام ولدیت کے خانے میں لکھنا درست نہیں، اور زید  چوں کہ اس بچوں کے حقیقی والد نہیں ہے، اس لیے وہ بطور والد اس بچوں کے کاغذات (documents ) میں اپنا نام نہیں لکھ سکتے، اس میں بہت سی خرابیاں ہیں، بالخصوص  اس میں حقیقی وارثوں کی حق تلفی بھی ہے،البتہ وہ اس بچوں کےکاغذات و غیر بناتے وقت اپنا نام ان کا غذات میں بطورِ سر پرست لکھوا سکتے ہیں ،اور اگر ان کے والد کا علم نہ ہو تب بھی ان کی ولدیت تبدیل نہ کی جائے اور ان کو اپنا بھائی یا دوست قرار دیا جائے،یہی حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم  میں دیا ہے، البتہ اس صورت میں گود لینے والا سرپرست کے خانے میں اپنا نام لکھو اسکتا ہے،اور ولدیت کے خانے میں عبد اللہ لکھوا دیا جائے، نیز زیرِ پر ورش بچوں کے لیے وہ تمام احکام نہیں جو حقیقی اولاد کے ہوتے ہیں، لہذا اس کے لیے میراث میں حصہ نہیں ہو گا، اگر محرم ہونے کی کوئی اور وجہ نہ ہو تو صرف منہ بولی اولاد بنانے کی وجہ سے وہ محرم نہیں بنے گا، لہذا بالغ ہونے کے بعد اس سے پردہ کر نالازم ہوگا ،لہذا جو خدشات سوال ذکر کئے گئے، وہ اپنی جگہ لیکن وہ ولدیت بدلنے کا عذر نہیں بن سکتا، بلکہ ان کو حکمت عملی کے ساتھ حقائق سے اگاہ کردیناہی درست طریقہ ہے،اور یہی عافیت کی راہ ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ  ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا }   ( الأحزاب:4،5)

ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)

صحیح بخاری میں ہے:

" عن سعد رضي الله عنه قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام)."

ترجمہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے : جس شخص نے اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو جانتے ہوئے اپنا والد قرار دیا تو اس پر جنت حرام ہے۔

(كتاب الفرائض، باب من ادعى إلى غير أبيه، ج:6، ص: 2485، ط: دار ابن كثير، دار اليمامة - دمشق)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن ‌أنس بن مالك قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله المتتابعة إلى يوم القيامة».

ترجمہ: ’’جو شخص اپنےباپ کے علاوہ کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعو ی کرے یا (کوئی غلام ) اپنے آقاؤں کی بجائےدوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر اللہ تعالی کی مسلسل لعنت ہو۔"

(‌‌كتاب الأدب، باب في الرجل ينتمي إلى غير مواليه، ج:4، ص:492، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي- الهند)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں