بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لے پالک کے کاغذات میں ولدیت کی جگہ گودلینے والا کا اپنا نام درج کرنا


سوال

 میں نے اپنے بھائی کی بیٹی کو گود لیا ہے، جوکہ رشتے میں میری بھتیجی ہے، مسئلہ یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ بچی کےکاغذات میں شناخت اپنے نام سے کرسکتا ہوں؟ کیوں کہ میری رہائش کراچی میں ہے اور بھائی کی رہائش پنجاب میں، اب اگر شناخت بھائی کے نام سے کراؤں تو ہر جگہ بھائی کے شناختی کارڈ کی ضرورت پڑے گی اگر کبھی بیرونی سفر کی ترتیب بنی تو بچی کے کاغذات کا مسئلہ ہوگا اور کاغذات کے مسائل کے علاوہ بھی دیگر مسائل کا سامنا جوکہ انتہائی مشکل ہے جیسا کہ اسکول یا مدرسے کے ایڈمشن کے حوالے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اگر صرف کاغذات کے اندر اپنے نام سے ولدیت کا اندراج کرانے سے تو کوئی حرج تو نہیں کیونکہ حقیقی والداین کی طرف سے اس کی اجازت ہے برائے کرم شریعت کی رو سے اس مسئلے کی مکمل وضاحت فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ لے پالک(گودلیے ہوئے بچے)حقیقی بچہ کے حکم میں  نہیں ہے،صرف گود لینے سے وہ حقیقی بچہ نہیں بن جاتااور نہ ہی اس پرحقیقی اولاد والے احکام جاری ہوں گے،نیزگودلیے ہوئے بچے کو اس کےحقیقی والدین کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کا اپنی بھتیجی کو لے پالک کے طورپرگود لیناجائزہے،البتہ ان کے کاغذات  میں ولدیت کی جگہ میں سائل کا اپنانام درج کرناشرعاً جائزنہیں ،لہذااگرسائل مذکورہ بچی کے کاغذات بنوانا چاہےتواس میں ولدیت کی جگہ میں حقیقی والدین کا نام درج کرناضروری ہے،تاہم اگرسائل بطورِ سرپرست مذکورہ بچی کو اپنانام دیناچاہے توشرعاً اس کی اجازت ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ  ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا "[الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ:" اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔" (از بیان القرآن)

التفسیرالمظہری میں ہے:

"فلا يثبت بالتبني شىء من احكام النبوة من الإرث وحرمة النكاح وغير ذلك."

(سورۃ  الأحزاب ج : 7 ص : 284 ط : رشيدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403101480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں