ایک شخص فوت ہوا ہے جس کے ورثاء میں ایک بیوہ ، دو بہنیں اور ایک بھتیجا ہے، جب کہ بھتیجے کا والد یعنی مرنے والے کا بڑا بھائی اس کی زندگی میں فوت ہوچکا ہے ، اس مرحوم نے اپنے بھتیجے کے بیٹے کو لے پالک اور منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا، اب سوال یہ ہے کہ مرحوم کی میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟ بھتیجے کو کتنا حصہ ملے گا ؟ اور لے پالک بیٹے کا شریعت میں کچھ حصہ ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں مرحوم کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنےکےبعداگر مرحوم کے ذمہ قرض ہو تو اس کو کل ترکہ سے ادا کرنےکےبعد،اگر اس نےکوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی ترکہ کی ایک تہائی میں سےنافذ کرنے کےبعد باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 12حصوں میں تقسیم کرکے3حصے مرحوم کی بیوہ کو،4حصےکرکےاس کی ہر ایک بہن کو اور 1حصہ اس کے بھتیجے کو ملےگا،جب کہ لےپالک بیٹے کا مرحوم کی میراث میں سے شرعاً کوئی حصہ نہیں ہے۔
تفسیر مظہری میں ہے:
"{وَما جَعَلَ الله أَدْعِياءَكُمْ ... أَبْناءَكُمْ فلايثبت بالتبني شىء من أحكام البنوة من الإرث وحرمة النكاح وغير ذلك".
(سورة الأحزاب، 286/7، ط: مكتبه رشيدية)
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت: 12
بیوہ | بہن | بہن | بھتیجا |
3 | 4 | 4 | 1 |
یعنی سو روپے میں سے25روپے مرحوم کی بیوہ کو،33.33روپےکرکےہرایک بہن کو اور8.33روپے اس کے بھتیجے کو ملیں گے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100290
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن