بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لے پالک بچے کو محرم کیسے بنایا جائے؟


سوال

ہم ایک بچہ اڈاپٹ کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے اپنے بھائی  کا بیٹا لینے  کی اجازت نہیں ملی۔ سسرال والے کہتے ہیں کہ میں اپنے دیور کا بیٹا ہی لوں۔

اس صورت میں ظاہر ہے کہ وہ بڑا ہو کر میرے لیے نا محرم ہو گا۔ اگر ہم رضاعت کا کوئی  رشتہ بنا کر اڈاپٹ کریں تو کیا یہ ٹھیک ہو گا؟

دوسرا سوال یہ کہ ہم نے مختلف سینٹرز سے بھی پتہ کیا ہے ان کی یہ شرط ہوتی ہےکہ ہم بچے کو اپنی ولدیت دیں، جو کہ با لکل ہی غلط ہے۔ برائے مہربانی میری مدد فرمائیں میں کیا کروں؟  میری شادی کو بارہ سال ہو گئے  مگر اولاد نہیں۔

جواب

1۔ صورتِ  مسئولہ میں   مذکورہ بچے  کی عمر دو سال مکمل ہونے سے پہلے اگر سائلہ  اسے اپنا دودھ پلادے تو وہ بچہ سائلہ کا رضاعی بیٹا بن جائے گا، یا اپنی بہن کا دودھ پلوا دے  تو  اس طرح مذکورہ بچہ اس کا رضاعی بھانجا بن جائے گا، یا سائلہ کی والدہ اس بچے کو دودھ پلادے تو  وہ بچہ سائلہ کا رضاعی بھائی بن جائے گا، جس طرح  حقیقی بھانجا اور حقیقی بھائی محرم ہوتا ہے،اسی طرح  رضاعی بھانجا اور رضاعی بھائی بھی محرم ہوتا ہے، مذکورہ طریقہ اختیار کرنے میں شرعًا کوئی قباحت نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة".

(كتاب الرضاع، ١ / ٣٤٣، ط: دار الفكر)

2۔کسی بچہ کو اپنی پرورش و کفالت میں لینا شرعاً جائز ہے،  البتہ ایسے بچوں کے حوالہ سے احکم الحاکمین کا فرمان ہے کہ ان کو ان کے اصل والد کے نام کے ساتھ ہی منسوب رکھا جائے اس میں رد و بدل نہ کی جائے، اور اگر ان کے والد کا علم نہ ہو تب بھی ان کی ولدیت تبدیل نہ کی جائے اور ان کو اپنا بھائی یا دوست قرار دیا جائے، جیساکہ سورۂ احزاب میں ہے:

"﴿ اُدْعُوهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوْا اٰبَآءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾."

(الأحزاب: ٥)

پس کسی اور کے بچہ کو اپنی ولدیت دینے  کی شرط پر کسی بھی فلاحی سینٹر سے بچہ لینا ( اڈاپ کرنا) جائز نہیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100944

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں