بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ریزر کے ذریعہ زیر ناف بال صاف کرنا / عورت کا زیر ناف بال کسی اور سے صاف کروانا


سوال

کیا عورت زیرِ ناف بال کسی اور سے کٹواسکتی ہے؟کیا عورت زیرناف بالوں کو ریزر سے صاف کرواسکتی ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں عورت اپنے زیرِناف بال خودصاف کرے ، عذر  کی صورت میں شوہر  سے صاف کرواسکتی ہے،  عام حالات  میں بیوی کا ستر نہ دیکھنا افضل ہے۔ نیز شدید مجبوری کی صورت میں دوسری عورت سے صاف کروانے کی گنجائش ہوگی، البتہ دوسری عورت اپنی نگاہ پست رکھے۔

  2۔صورتِ مسئولہ میں ریزر کے ذریعہ زیرِ ناف بالوں کو صاف کرنا جائز ہےبشرط یہ کہ ریزر سے زیرِ ناف بال صاف خود عورت کرے یا اپنے شوہر سے کروائے، البتہ اگر ریزر کے ذریعے جلد  كوکوئی نقصان پہنچتاہوتو ریزر کے ذریعے بال صاف کرناجائز نہیں ہوگا۔

حدیث شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: 

"مانظرت أو ما رأیت فرج رسول الله صلی الله علیه وسلم قط."

(سنن ابن ماجه:138، أبواب النکاح، ط:قدیمی)

ترجمہ:"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر کی طرف کبھی نظرنہیں اٹھائی، یایہ فرمایاکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاسترکبھی نہیں دیکھا۔"

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وحكم النتف والقص والاطلاء بالنورة والقلع بالأسنان حكم الحلق كذا في السراج الوهاج."

(کتاب المناسك،ج:1،ص:244،ط:رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

"وفي الإبط يجوز الحلق والنتف أولى ويبتدئ في حلق العانة من تحت السرة ولو عالج بالنورة في العانة يجوز كذا في الغرائب. في جامع الجوامع حلق عانته بيده وحلق الحجام جائز إن غض بصره، كذا في التتارخانية."

(کتاب الکراھیة،ج:5،ص:358،ط:رشیدیة)

الدرالمختار مع الردالمحتار میں ہے:

"(قوله: والنامصة إلخ) ذكره في الاختيار أيضا وفي المغرب. النمص: نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه، ففي تحريم إزالته بعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. وفي تبيين المحارم: إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلاتحرم إزالته بل تستحب اهـ، وفي التتارخانية عن المضمرات: ولا بأس بأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشبه المخنث اهـ ومثله في المجتبى تأمل."

(كتاب الحظر وإباحت،فصل في النظروالمس،ج:6،ص:373،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں