بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لائیو پروگرام نشر کرنے اور سیلفی بنانے کا حکم


سوال

مسجد  کے ہال کے اندر جہاں جماعت ہوتی ہے یا دینی مدرسوں میں جہا ں طالبِ علم قرآنِ پاک پڑھتے ہیں جو  دینی پروگرام ہوتے ہیں ( ختم بخاری وغیرہ ) ان کولائیو نشر کیا جاتا ہے (فیس بک یا یوٹیوب وغیرہ)اور پروگرام میں سیلفیاں بنائی جاتی ہیں،  کیا یہ سب جائز ہیں ؟ یا ان میں سے کچھ جائز ہیں ، کچھ ناجائز ہیں ؟ راہ نمائی کر دیں،  مکہ اور مدینے میں بھی سیلفی لی جاتی ہے، جب کہ خانہ کعبہ  پیچھے  کی جانب دیکھایا جاتا ہے،  کیا یہ جائز ہے ؟ اگر جائز ہے تو اس بات کو دلیل بنا کر کراچی ، لاہور ، پشاور ، بالاکوٹ  وغیرہ  والے اپنے عمل کو  درست کہہ  سکتے  ہیں ؟

جواب

دینِ  اسلام  میں  جان  دار  کی  تصویر سازی، خواہ کسی بھی شکل میں ہو  (متحرک ہو یا ساکن)یا کسی بھی طریقے سے بنائی گئی ہو،نیز بناوٹ کے لیے جو بھی آلہ استعمال ہو، اور  ضرورتِ  شدیدہ  کے علاوہ کسی بھی غرض و مقصد سے تصویر سازی کی گئی ہو، سب حرام ہے، مذکورہ تنوع واختلاف سے کسی جائز کام کو  مدنظر  رکھ کر صورت گری اور تصویر سازی کے حکم میں کوئی فرق یانرمی نہیں آتی، نصوص کی کثیر تعداداور بے شمار فقہی تصریحات اس مضمون کے بیان پر مشتمل ہیں، جو اہلِ علم سے مخفی نہیں ہیں، اسی طرح ماضی قریب تک تصویر سازی کی حرمت کا مسئلہ اہلِ علم کے ہاں مسلم و متفق علیہ رہا ہے اور اسے بدیہی امور میں سمجھا جاتا تھا، یعنی جس کو عرف نے تصویر کہا وہ تصویر قرار پائی۔

لہذا لائیو پروگرام نشر کرنا (خواہ وہ دینی ہو، مسجد میں ہو یا کہیں بھی ہو) یا سیلفی وغیرہ بنانا  (خواہ وہ حرمین میں ہو) از رُوئے  شرع تصویر سازی  کے حکم میں ہونے کی وجہ سے ناجائز  ہے، اہلِ علم و اہلِ فتوی کی بڑی تعداد کی تحقیق کے مطابق تصویر کے جواز وعدمِ جواز کے بارےمیں ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل کی تقسیم شرعی نقطہ نظر سے ناقابلِ اعتبار ہے ۔ بلکہ مساجد میں دینی پروگرام اور عبادات کی ویڈیو، تصاویر اور سیلفی بنانا نہ صرف عبادات کی روح  (اخلاص و توجہ الی اللہ) کے ختم یا کم ہونے کا سبب ہے، بلکہ ریا و نمود  کا سببِ عادی ہے یا آئندہ بن سکتاہے، مزید  یہ کہ مساجد اور حرمین شریفین  مقدس مقامات ہیں، اور ناجائز کام مقدس جگہ پر کرنے سے اس کی سنگینی میں اضافہ ہی ہوتاہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

(كتاب الصلوة، مكروهات الصلوة، ج:1، ص:647، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144208200054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں