1:۔ آج کل یہ رواج بن چکاہے کہ جس بندےکی اپنی اولادنہیں ہوتی تودوسروں سے بچہ یابچی لےکراس کی پرورش کرتےہیں،اوراس کواپنی اولاد شمارکرتےہیں ،توکیااس طرح کرناجائزہےیانہیں ؟
2:۔اسی طرح میری بھی اپنی اولادنہیں تواپنے بھائی سے ایک بچی لےکراس کی پرورش کی اوروہ اب تقریباًچودہ سال کی ہوچکی ہے،اوریہ بچی میرے ساتھ میرے شناختی کارڈاورپاسپورٹ وغیرہ کی ریکارڈ میں شامل ہے،یعنی ان کاغذات میں بطوروالدمیرانام ہے،توکیا میں اس کواپنی کاغذات سے نکال دوں یامیرےساتھ شام رہے؟
3:۔میں نےسناہے کہ جوبندہ اپنانسب بدل دےاس پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے،توکیاہم اس وعیدکامصداق ہے؟
4:۔اوریہ بچی اپنے اصل باپ کوواپس کردوں یاہمارےساتھ رہے؟اوراگروہ نہیں جاناچاہتی توپھرکیاکیاجائے؟
واضح رہے کہ یہ عارضی دنیا ایک طرف تو اللہ تعالی کی عطاء کردہ نعمتوں سے بھری پڑی ہے، اور اس میں بے شمار نعمتیں ہیں، مگر ہر انسان کو اللہ تعالی نے ہر نعمت عطاء نہیں فرمائی جو کہ اس دنیا کی بےثباتی کی دلیل ہے،اللہ جلّ شانہ جسےچاہتاہےنعمتیں عطاء فرماتاہےجسےچاہےمحروم کرتاہے،لہذا ہر آدمی کو اولاد کی نعمت کا میسر ہونا ضروری نہیں، چناں چہ اگر ایسا بے اولاد شخص کسی بچے کو گود لے کر اسے پالنا چاہےتو یہ جائز عمل ہے، اس بچے کی بہترین تعلیم و تربیت اور پرورش پر ایسےشخص کوبھرپور ثواب کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔
لیکن اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جو کہ شریعت میں مطلوب ہے :
ایک بات تو یہ کہ لے پالک بچوں کی نسبت ہمیشہ ان کے حقیقی والدین ہی کی طرف کی جائے جن کی پشت اور کوکھ سے اس بچے نے جنم لیا ہے، اس لئے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے شرعاً وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا، اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے احکام جاری ہوتے ہیں، یہ زمانہ جاہلیت کا دستور تھا کہ لوگ منہ بولا بیٹے کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے، اسلامی تعلیمات نے اس فرسودہ رواج کی بیخ کنی کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ منہ بولی اولادحقیقی اولاد نہیں ہے بلکہ لے پالک کو اس کے حقیقی والدین کی طرف منسوب کرنا ضروری اور لازمی ہے۔
لہذاسائل کےلئے اپنے بھائی کی بیٹی لےکرپرورش کرناتوجائزہےلیکن اس کی والدیت میں سائل کااپنانام لکھواناشرعاًناجائزاورسخت گناہ ہے،لہذااس بچی کواس کےحقیقی باپ کی طرف نسبت کرناضروری ہے۔
قرآن کریم نے اس کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا کہ:
"وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْؕ-ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ هُوَ یَهْدِی السَّبِیْلَ."
ترجمہ:” اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہاراحقیقی بیٹا بنایا، یہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے اور الله حق فرماتا ہے اور وہی راہ دکھاتا ہے۔“
(سورة الاحزاب4)
نیز اگر گود لینے والا/ والی اس بچے کے لیے نامحرم ہو تو وہ بلوغت کے بعد پردے کا اہتمام کرنا ضروری ہے، البتہ اگر گود لینے والی عورت مدت رضاعت میں اس بچے کو دودھ پلائے تووه اس بچے کی رضاعی ماں اور اس کا شوہر رضاعی والد بن جائے گا، یا اس عورت کی بہن دودھ پلا دے تو یہ گود لینے والی اس کی رضاعی خالہ بن جائے گی، اگر بچی گودلی ہو تو شوہر کی بیوی یا بہن دودھ پلا دے تو اس صورت میں بچے کے لیے اس سے پردے کا حکم نہیں ہوگا، اسی طرح لے پالک کی پرورش اور تربیت کرنے والا/والی کی وراثت کا حق دار نہیں ہوگا،حقیقی اولاد کی طرح گود لینے والوں کو ماں یا باپ کا درجہ حاصل نہیں ہوگا۔
مشکاۃ شریف میں ہے:
"عن سعد بن أبي وقاص وأبي بكرة قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام."
ترجمہ:”حضرت سعد بن ابی وقاص اورحضرت ابی بکرہ رضی اللہ عنہم نےفرمایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بیٹے ہونے کا دعویٰ کیا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔“
(كتاب النكاح، الفصل الاول، ج:2، ص:990، ط:المكتب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101531
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن