بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لے پالک بھتیجے سے چچی کا پردہ اور اس کی وراثت کا حکم


سوال

ہم دو بھائی ہیں، ان میں سے ایک بھائی کے دو بچے تھے دوسرے کے نہیں، تو جن بھائی کے دو بچے تھے اس نے اپنے ایک بچے کو دوسرے بھائی کی ملکیت میں دے دیا۔ اب سوال یہ ہے اگر یہ بچہ بالغ ہوجائے تو اس بچے کا اس دوسرے بھائی کی بیوی سے پردہ ہے یا نہیں؟ اسی طرح اس دوسرے بھائی سے اس کو میراث ملے گی یا نہیں؟ اور اس طرح کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب

1-صورت مسئولہ میں بچے کا بالغ ہونے کےبعداپنی مذکورہ چچی سے(بشرطیکہ وہ چچی قریبی نسبی یا رضاعی محارم میں سے نہ ہو )شرعاً پردہ کرنالازم ہوگا ،کیوں کہ اس وقت  چچی مذکورہ بچے کے لیے اجنبی کے حکم میں ہے۔ 

2-صرف پرورش  اور گود لینے کی بنا پر مذکورہ بچہ اس کا وارث نہیں بنےگا،تاہم اگر مذکورہ شخص کے انتقال کے وقت نہ اس کی نرینہ اولاد ہو،نہ باپ دادا ہوں اورنہ کوئی بہن،بھائی زندہ ہو تو ایسی صورت میں وہ بچہ عصبہ ہونے کی بنا پر مذکورہ شخص کا وارث ہوگا۔

قرآن مجید میں ہے:

{لَّا جُنَاحَ عَلَيۡهِنَّ فِيٓ ءَابَآئِهِنَّ وَلَآ أَبۡنَآئِهِنَّ وَلَآ إِخۡوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبۡنَآءِ إِخۡوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبۡنَآءِ أَخَوَٰتِهِنَّ وَلَا نِسَآئِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَٰنُهُنَّۗ}

(سورۃ الاحزاب، آیت 56)         

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"قوله تعالى لا جناح عليهن في آبائهن ولا أبنائهن الآية قال قتادة رخص لهؤلاء أن لا يجتنبن منهم قال أبو بكر ذكر ذوي المحارم منهن وذكر نساءهن۔"

(سورۃ الاحزاب، ص/243، ج/5، ط/دار احیاء التراث العربی)

فتاوی شامی میں ہے:

"ویستحق الارث برحم ونكاح وولاء۔"

(كتاب الفرائض، ص/762، ج/6، ط/سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100983

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں