بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لے پالک بچی کے بالغ ہوجانے کے بعد منہ بولے والد کے گھر میں رہنے اور پردے کے احکامات


سوال

ایک شخص نے اپنے سالے کی ایک بیٹی کو پیدائش کے وقت سے ہی گود لے کر پرورش کی ہے، اور اس کو ماں باپ والا پیار دیا ہے، بیٹی ان کو ہی اپنے ماں باپ سمجھتی ہے، اسے اپنے حقیقی والدین کا علم نہیں ہے، لیکن اس شخص کی بیوی نے اس بچی کو دودھ نہیں پلایا ہے، اب وہ بچی بالغ ہوچکی ہے، میرے دوست اس بچی کے ساتھ سوتے بھی ہیں، پیار بھی کرتے ہیں اور گود میں بھی بٹھاتے ہیں، اس شخص کے گھر میں اس کا ایک بیٹا بھی رہتا ہے جس کو یہ معلوم ہے کہ یہ اس کی حقیقی بہن نہیں ہے، بچی کی عمر اب 13 سال ہے، دریافت یہ کرنا ہے کہ مذکورہ بچی کا اس گھر میں رہنا اور ان لوگوں کا اس بچی کو اس گھر میں رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

نوٹ:  اس بچی نے مذکورہ شخص کی بہنوں یا اس کی دیگر محارم عورتوں میں سے کسی کا بھی دودھ نہیں پیا ہے۔

جواب

شریعتِ  مطہرہ  میں لے پالک اور منہ بولے بیٹے،بیٹی  کی حقیقی اولاد  کی طرح حیثیت نہیں ہے،  اور کسی کو منہ بولا بیٹا،بیٹی بنانے سے وہ حقیقی بیٹا ،بیٹی نہیں بن جاتے اور نہ ہی ان پر حقیقی اولاد  والے اَحکام  جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود  میں لینے  والے کو   بچے کی  پرورش، تعلیم و تربیت  اور اسے ادب و اخلاق  سکھانے کا ثواب ملتا ہے،  جاہلیت کے زمانے  میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولی اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور  و رواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی۔ اور لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔  جب رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ”متبنیٰ“ (منہ بولا بیٹا)   بنایا اور لوگ ان کو ”زید بن محمد“ پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:

{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا }

[سورۃ الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ:  اور  تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا  (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا،  یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے، اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں، اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے ”زید بن حارثہ“  کے نام سے پکارنے لگے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ  کسی  بچے کو گود لینے سے وہ حقیقی بیٹایا بیٹی نہیں بنتے، نہ ہی ان پر حقیقی بچوں والے احکامات جاری ہوتے ہیں، اس لیے  لے پالک  کو اس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے،شناختی کارڈ اور دیگر کاغذات میں اس کی ولدیت میں گود لینے والے کا نام بطور والد درج کرانا حرام اور ناجائز ہے، ہاں گود لینے والا شخص بطورِ سرپرست اس بچے کو اپنا نام دے سکتا ہے۔

ریاض الصالحین میں ہے:

"367 - باب تحريم انتساب الإِنسان إِلَى غير أَبيه وَتَولِّيه إِلَى غير مَواليه.

1/1802-عَنْ سَعْدِ بن أَبي وقَّاصٍ أنَّ النبيَّﷺقالَ: مَن ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أنَّهُ غَيْرُ أبِيهِ فَالجَنَّةُ عَلَيهِ حَرامٌ. متفقٌ عليهِ".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس شخص نے اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو جانتے ہوئے اپنا والد قرار دیا تو اس پر جنت حرام ہے۔

"2/1803- وعن أبي هُريْرَة عَن النَّبيِّﷺقَالَ: لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أبيهِ فَهُوَ كُفْرٌ. متفقٌ عليه".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اپنے والد سے بے رغبتی و اعراض مت کرو ؛ اس لیے کہ جو شخص اپنے والد سے اعراض (اپنے آپ کو کسی اور کی طرف منسوب) کرے گا تو یہ کفر ہے۔

"3/1804- وَعَنْ يزيدَ شريكِ بن طارقٍ قالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا عَلى المِنْبَرِ يَخْطُبُ، فَسَمِعْتهُ يَقُولُ: ... وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أبيهِ، أَوْ انتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَاليهِ، فَعلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّه وَالملائِكَةِ وَالنَّاسِ أجْمَعِينَ، لا يقْبَلُ اللَّه مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامةِ صَرْفًا وَلا عَدْلًا. متفقٌ عليه".

ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : جو شخص اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا والد قرار دے گا یا غیر کی طرف منسوب کرے گا تو اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، روز قیامت اللہ اس کی مالی عبادات قبول نہیں کرے گا۔

"4/1805- وَعَنْ أَبي ذَرٍّ أنَّهُ سَمِعَ رسولَ اللَّهﷺيَقُولُ: لَيْسَ منْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْر أبيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إلاَّ كَفَرَ، وَمَنِ ادَّعَى مَا لَيْسَ لهُ، فَلَيْسَ مِنَّا، وَليَتَبوَّأُ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّار، وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْكُفْرِ، أوْ قالَ: عدُوَّ اللَّه، وَلَيْسَ كَذلكَ إلاَّ حَارَ عَلَيْهِ. متفقٌ عليهِ. وَهَذَا لفْظُ روايةِ مُسْلِمِ".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جانتے ہوئے کسی اور کے بارے میں والد ہونے کا دعوی کسی نے کیا تو اس نے کفر کیا ۔۔۔الحدیث۔

 اگر کوئی شخص کسی  بچے یا بچی  کو گود  لے کر اس  غرض سے اپنے پاس رکھے کہ میں اس کی تربیت  وپروش کروں گا، اور اسے اولاد کی طرح رکھوں گا، اوراس کے اخراجات ومصارف  اٹھاؤں گا، اور اس کے حقیقی والد سے اس کی نسبت منقطع نہ کرے   تو یہ جائز ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ گود لی ہوئی بچی کو تمام صورتِ حال سے آگاہ کردے اور اسے اس کے حقیقی والدین کے بارے میں بتادےاور آئندہ کے لیے اس بچی کو اس کے حقیقی والدین کی طرف ہی منسوب کر کے  لکھا اور پکارا جائے، نیز اگر بچی نے مدتِ رضاعت (دو سال یا زیادہ سے زیادہ ڈھائی سال ) میں مذکورہ شخص کی بیوی کا دودھ نہیں پیا تھا یا اسی طرح   اس بچی نے مذکورہ شخص کی بہنوں یا اس کی دیگر محارم عورتوں میں سے کسی کا بھی دودھ نہیں پیا تھا تو یہ بچی اپنے اس منہ بولے والد/ سرپرست اور اس کے بیٹے  کے لیے نامحرم ہے، اس لیے اس لڑکی پر اپنے اس منہ بولے والد/ سرپرست اور اس کے بیٹے سے دیگر غیر محرم لوگوں کی طرح پردہ کرنا لازم ہے اور مذکورہ شخص کا  اب اس بچی کے بڑے ہونے کے بعد اسے پیار کرنا، اپنے ساتھ سلانا اور گود میں بٹھانا جائز نہیں ہے۔

لہٰذا اگر مذکورہ بچی کا پردہ کے اہتمام کے ساتھ اس گھر میں رہنا ممکن ہو تو اس کا اس گھر میں رہنا اور گھر والوں کا اسے اس گھر میں رکھنا جائز ہے، لیکن اگر  اس لڑکی کا پردہ کے اہتمام کے ساتھ اس گھر میں رہنا ممکن نہ ہو یا فتنے کا اندیشہ ہو تو پھر اس بچی کا شادی ہونے تک اپنے حقیقی والدین کے ساتھ ہی رہنا لازم ہے۔

تفسير ابن كثير(6/ 376)میں ہے:

"وقوله: ﴿وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ﴾ : هذا هو المقصود بالنفي؛ فإنها نزلت في شأن زيد بن حارثة مولى النبي صلى الله عليه وسلم، كان النبي صلى الله عليه وسلم قد تبنّاه قبل النبوة، وكان يقال له: "زيد بن محمد"، فأراد الله تعالى أن يقطع هذا الإلحاق وهذه النسبة بقوله: ﴿وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ﴾ كما قال في أثناء السورة: ﴿ مَا كَانَ مُحَمّد اَبآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا﴾ [الأحزاب:40] وقال هاهنا: ﴿ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ ﴾ يعني: تبنيكم لهم قول لا يقتضي أن يكون ابناً حقيقياً، فإنه مخلوق من صلب رجل آخر، فما يمكن أن يكون له أبوان، كما لا يمكن أن يكون للبشر الواحد قلبان. ... وقوله:﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ﴾: هذا أمر ناسخ لما كان في ابتداء الإسلام من جواز ادعاء الأبناء الأجانب، وهم الأدعياء، فأمر [الله] تعالى برد نسبهم إلى آبائهم في الحقيقة، وأن هذا هو العدل والقسط. قال البخاري، رحمه الله: حدثنا معلى بن أسد، حدثنا عبد العزيز بن المختار، حدثنا موسى بن عقبة قال: حدثني سالم عن عبد الله بن عمر؛ أن زيدا بن حارثة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما كنا ندعوه إلا زيد بن محمد، حتى نزل القرآن: ﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ﴾ . وأخرجه مسلم والترمذي والنسائي، من طرق، عن موسى بن عقبة، به ۔ وقد كانوا يعاملونهم معاملة الأبناء من كل وجه، في الخلوة بالمحارم وغير ذلك؛ ولهذا قالت سهلة بنت سهيل امرأة أبي حذيفة: يا رسول الله، كنا ندعو سالماً ابناً، وإن الله قد أنزل ما أنزل، وإنه كان يدخل علي، وإني أجد في نفس أبي حذيفة من ذلك شيئاً، فقال صلى الله عليه وسلم: "أرضعيه تحرمي عليه" الحديث. ولهذا لما نسخ هذا الحكم، أباح تعالى زوجة الدعي، وتزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم بزينب بنت جحش زوجة زيد بن حارثة، وقال: ﴿ لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَج فِيْ اَزْوَاجِ اَدْعِيَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا﴾ [الأحزاب:37] ، وقال في آية التحريم: ﴿وَحَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ﴾ [النساء:23] ، احترازاً عن زوجة الدعي، فإنه ليس من الصلب، فأما الابن من الرضاعة، فمنزل منزلة ابن الصلب شرعاً، بقوله عليه السلام في الصحيحين: "حرموا من الرضاعة ما يحرم من النسب" . فأما دعوة الغير ابناً على سبيل التكريم والتحبيب، فليس مما نهي عنه في هذه الآية، بدليل ما رواه الإمام أحمد وأهل السنن إلا الترمذي، من حديث سفيان الثوري، عن سلمة بن كهيل."

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) حرم (الكل) مما مر تحريمه نسباً، ومصاهرةً (رضاعاً) إلا ما استثني في بابه.

(قوله: نسباً) تمييز عن نسبة تحريم للضمير المضاف إليه، وكذا قوله: مصاهرةً، وقوله: رضاعاً تمييز عن نسبة تحريم إلى الكل، يعني يحرم من الرضاع أصوله وفروعه وفروع أبويه وفروعهم، وكذا فروع أجداده وجداته الصلبيون، وفروع زوجته وأصولها وفروع زوجها وأصوله وحلائل أصوله وفروعه".

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، 3/ 31، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100651

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں