بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاٹری والے کو دکان کرائے پر دینا


سوال

 میری ایک دوکان ہےجس کو میں نے کرایہ پر دیا ہے ایک لاٹری والے کو جس میں بعض پیسوں کے بدلے پیسہ اوربعض پیسوں کے بدلے خالی ہوتی ہے اس دوکان کا چھ ہزار روپے مجھے کرایہ ملتا ہے اور چھ مہینے  سےمیں نے یہ دوکان اسکو کرایہ پر دی ہے اب کیا میرے اس دوکان کا کرایہ میرے لیے لینا جائزہے یا نہیں اور اب اس کا میرے لیے کیا حکم ہے ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں  لاٹری  کی آمدنی سود اور جوئےپر مشتمل ہونے کی وجہ سےناجائز ہے اس لیے لاٹری والے کو دکان کرایہ پر دینا شرعاً جائز نہیں ،اس کے ساتھ معاھدہ کو فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔

اللہ تعالی قرآن  پاک میں فرماتے ہیں :

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ".

(سورۃ آل عمران ، الآیۃ : 13) 

ایک اور جگہ باری تعالی کا ارشاد ہے۔

"وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰۖ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ."

[سورۃ المائدۃ آیت:۲] 

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے۔

"يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّمَا ٱلۡخَمۡرُ وَٱلۡمَيۡسِرُ وَٱلۡأَنصَابُ وَٱلۡأَزۡلَٰمُ رِجۡسٞ مِّنۡ عَمَلِ ٱلشَّيۡطَٰنِ فَٱجۡتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ."

[سورۃ المائدۃ آیت:۹۰]

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے۔

حقيقته تمليك المال على المخاطرة."

(أحكام القرآن للجصاص ،ج:2، ص:582، ط:العلمية)

مشکاۃشریف میں ہے۔

" عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ: قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء۔ رواہ مسلم."

(مشکاۃ المصابیح،  باب الربا،ج:1 ص:244 ط:)

الدرالمختار  میں ہے: 

"هو لغة: مطلق الزيادة وشرعا (فضل)(خال عن عوض)(بمعيار شرعي) وهو الكيل والوزن مشروط) ذلك الفضل (لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر(في المعاوضة)."

( كتاب البيوع ، باب الربا ج : 5 ص : 170 ط : سعيد )

وفیہ ایضاً:

"لا تصح الإجارة لعسب التيس ۔۔۔ولا لاجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي ۔۔۔جاز ( إجارة بيت بسواد الكوفة ) أي قراها  ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر ) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة."

(الدر المختار ،كتا ب الاجارة،باب الاجارة الفاسدة،ج:6، ص:393، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے۔

"وإجارة بيت ليتخذ بيت نار أو بيعة أو كنيسة أو يباع فيه خمر بالسواد ) يعني جاز إجارة البيت لكافر ليتخذ معبدا أو بيت نار للمجوس أو يباع فيه خمر في السواد وهذا قول الإمام  وقالا يكره كل ذلك لقوله تعالى { وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان }."

(البحرالرائق، كتاب الاجارة، ج:8، ص:202، ط: دارلفکر)

ہدایہ میں ہے۔

"ومن آجر بيتا ليتخذ فيه بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر بالسواد فلا بأس به وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا لا ينبغي أن يكريه لشيء من ذلك لأنه إعانة على المعصية."

(الهداية، کتاب الإجارة، ج:3، ص:234 ط )

کفایت المفتی میں ہے:

"(سوال): ایک آدمی مسلمان ہونے کے باوجود ٹھیکہ شراب جو سرکار عالیہ کی طرف سے ہوتا ہے بذریعہ نیلام لے چکا ہے ، اور شراب کا عادی بھی ہے ، اور اب وہ چھوڑ بھی نہیں سکتا ، کیونکہ کافی نقصان اٹھانا پڑے گا، دو ہندوئوں کو بھی شریک کر چکا ہے ،متذکرہ بالا آدمی کے شریک ہندو کو اگر کوئی مسلمان کرایہ پر دکان دے دے جو ہمیشہ کرایہ پر رہتی ہے تو مالک دکان گنا ہگار ہوگا یا نہیں؟

(جواب: 338): مسلمان کے لئے شراب کی تجارت حرام ہے ۔ کسی حال میں بھی جائز نہیں ہوسکتی ، ہندوئوں کو شریک کر لینے سے اس کا گناہ مرتفع نہیں ہوسکتا، شراب فروشی کے لئے مسلمان یا مسلمان کے شریک کو دکان کرایہ پر دینا بھی مکروہ تحریمی ہے ۔

ہاں غیر مسلم کو خاص اس کی تجارت کے لئے دکان کرایہ پر دی جائے اور وہ شراب فروخت کرے تو مضائقہ نہیں."

محمد کفایت اللہ غفرلہ،دہلی، الجمعیۃ، مؤرخہ:26جون، سن 1927ء

(کتاب المعاش، ملازمت اور اجارہ، عنوان:شراب کی تجارت کے لیے دوکان کرایہ پر دینا، ج:7، ص:332، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101340

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں