اگر لاٹری ٹکٹ ایک مسلمان ملک میں قانونی طور پر جائز ہے،تو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟
واضح رہے کہ لاٹری خالص جوا ہے جو حرام ہےاور جو چیز شریعت نے ناجائز اور حرام قرار دی ہو تو اس کو اگرچہ کسی ملک میں قانونی اجازت حاصل ہوجائے پھر بھی وہ چیز جائز اور حلال نہیں ہوسکتی۔
کفایت المفتی میں ہے:
" لاٹری ٹکٹ خریدنا جائز نہیں ہے وہ قمار ہے اور قمار حرام ہے۔"
(کتاب الحظر والاباحۃ ،ج:9،ص:226،ط:دارالاشاعت )
قرآن مجید میں ہے:
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ."[المائدة ]
ترجمہ :"اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں ہیں۔شیطانی کام ہیں۔ سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"
( سورۃ المائدۃ،آیت :90،از بیان القرآن )
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".
(كتاب البيوع والأقضية،ج:4،ص:483،ط:دار التاج)
أحکام القرآن میں ہے:
"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه".
(سورۃ البقرۃ،،باب تحریم المیسر،ج:1،ص:398،ط: دار الکتب العلمیة بیروت - لبنان)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."
(کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ج:6،ص:403،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403101129
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن